Thursday, February 12, 2015

قصہ شش درویش

0 comments
ہوا کچھ یوں کہ جب ہم اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے تو ہمارے سامنے ایک عدد مینو پیش کر دیا گیا ۔ اخباری کاغذ پر چھپی اس فہرست کو ہماری فہم تو مینو ماننے سے انکاری تھی لیکن اس چار صفحی فہرست کے اندرونی 2 صفحات پر کھانے پینے کی چند چیزوں کے نام دیکھ کر چار و نا چار اس پر نظر دوڑانے لگے ، لیکن کوئی ڈش (کھانا) دل کو نہ بھائی ۔ ورق الٹ کر بیرونی صفحات کی طرف جھانکا تو میاں شہباز شریف کی لہراتی انگلی والی تصویر سے مڈ بھیڑ ہو گئی ۔ اب آپ ہی انصاف فرمائیے کہ بندہ گھر سے کھانے کے لئے نکلے اور مینو میں اسے انگلی پیش کر دی جائے تو اس سے زیادہ سنگین مذاق کیا ہو گا ؟ ۔ میاں صاحب کی انگلی سے بچے تو اپنے سامنے ایک  مزید "قرطاس ابیض" موجود پایا ۔ یہ بکس بورڈ(سفید گتے) کا ایک ورق تھا ۔ اسے بغور دیکھا تو آشکار ہوا کہ یہ ایک اور مینو ہے ۔ سگریٹ کے کثیف دھوئیں سے آلودہ انتہائی کم اونچائی کی چھت والے ہال کی بالائی منزل میں جہاں  دھوئیں کی  گھٹن ، سستے عطر نسائی (لیڈیز پرفیوم) کی بواور دوستوں کی بلا توقف جگت بازی کے دوران مجھ جیسے سادے آدمی کی ذہنی کیفیت پہلے ہی سے ایسی ہو جاتی ہے جسے انگریز نے فرسٹریشن کا نام دے رکھا ہے ، اس پر مستزاد کہ دو دو مینوز میں سے کھانے کا انتخاب کرنا پڑ جائے وہ بھی لہراتی انگلی دیکھ دیکھ کر۔۔۔ ظلم تو ہے نا ؟؟؟ ۔
خیر اپنے حواس کو مجتمع کرتے ہوئے اپنے قریب کھڑے بیرے پر بھرپور نگاہ ڈال کر اپنے اعتماد کو بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی اور مینو پر نظر جمائے اس سے پوچھ لیا " یار یہ بکس بورڈ کے مینو کے آخر میں کون سی ڈش ہے' ؟ ۔ اس نے کسی روبوٹ کی طرح کھڑے اور تنے رہ کر جواب دیا " یہ ببلی بریانی ہے" !۔ جواب سُن کر دماغ آؤٹ ہو گیا کہ یہ کم بخت ببلی تو بد معاش ہوا کرتی تھی یہاں مینو میں اس نا ہنجار کا کیا کام ۔ بیرے کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ اپنے کان کو ہمارے منہ کی سطح پر لے آئے لیکن وہ کم بخت ہمارے ہاتھ کے اشارے کو پاکستان ہاکی ٹیم  کے کھلاڑی والا "فحش" اشارہ سمجھ بیٹھا ۔ اس کے چہرے پر پھیلتی ناگواری کو دیکھتے ہوئے اب کی بار مٹھی کھول کر انگلیوں کی حرکت سے اشارے کی وضاحت کی تو اس نے رکوع کی حالت میں جھک کر بات سننے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے کان کے قریب منہ کر کے پوچھا " یار ، یہ بتاؤ یہ جو ببلی بریانی ہے کیا یہ ببلی نے بنائی ہے یا بریانی کے ساتھ ببلی بھی پیش کی جاتی ہے " ؟ ۔ ابھی میری بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ پھر سے اس تیزی سے پہلے والی حالت میں آ گیا کہ میری بات میں شاید بجلی کا کرنٹ تھا ۔ 
میرے دوستوں کی ایک بہت اچھی خاصیت ہے کہ ان کی بصارت اور سماعت ایسے رنگین و سنگین  مواقع پر قابل رشک بلکہ  قابل دید ہوتی ہے ۔ اگرچہ سڑک پر چلتے ہوئے ان کو ٹرک کا ہارن بھی سنائی نہیں دیتا لیکن اس ہال میں پہنچتے ہی کوئی نقرئی قہقہہ ہال کے آخری کونے پر گونجے تو یہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہال میں یہ تک بتا دیتے ہیں کہ یہ قہقہہ کون سی میز سے کس مہہ جبین کا تھا ۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ بیرے سے ہونے والی میری گفتگو ان کی سماعتوں سے محفوظ رہتی ۔ ببلی کا نام سنتے ہیں لینکس والے مولوی سعد صاحب سر نیہوڑا کر کچھ شرما گئے لیکن بعد میں معلوم ہوا یہ شرم نہیں تھی بلکہ مینو پر نظر ڈالی گئی تھی کہ ببلی کے علاوہ کوئی شیلا یا رضیہ برییانی بھی دستیاب ہے یا نہیں ۔ نجیب عالم بھائی نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا " یار ، کچھ بھی لے آ ۔ بے شک پپو بریانی لے آ" ۔ محمد عبداللہ چونکہ ابھی نوجوان ہیں اس لئے ببلی اور پپو کا نام سُن کر ان کو تو حق حاصل ہو گیا تھا کہ چاروں طرف گردن گھما کر کسی ببلی یا پپو کو تلاش کرنے لگے ۔ عاطف بٹ صاحب چونکہ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور استاد بھی ہیں اس لئے ان کا "طریقہ واردات" بھی استادانہ ہی تھا ۔ 45 رجے پر گردن جھکا کر آنکھوں کا زاویہ 135 درجے پر فٹ کر کے انہوں نے جھکی جھکی اکھیوں سے کالے کجروں اور پھولوں کے گجروں کو سلام کر لیا ۔
مزید احوال اگلی قسط میں