Saturday, May 16, 2015

صحافت , صحافی کا کرداراور سوشل میڈیا

10 comments
صحافی 
ایک خبر رساں نمائندہ ہی نہیں ہوتا اور اگر کوئی دوسرا یا وہ کوئی صحافی خود کو صرف خبر رساں سمجھتا ہے تو وہ سرے سے غلط سمجھتا ہے ۔ صحافی گو کہ ایک فرد ہوتا ہے لیکن دراصل وہ اپنے آپ میں ایک تحریک کا درجہ رکھتا ہے وہ تحریک جو معاشرے میں پائے جانے والی ناہمواریوں کو ایک عام آدمی کے سامنے لانے کے لئے ہمہ دم کوشاں رہتی ہے اور اس کے حل کے لئے اپنے قلم کو یوں استعماال کرتی ہے کہ وہ جہاں تلوار سے زیادہ کاٹ دار نظر آتا ہے وہیں ایک   شیریں زبان مصلح کا روپ بھی دھارتا ہے ۔
تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے ادوار میں اردو صحافت اپنے معیار اور کام کے حوالے سے بلندی پر تھی ۔ تب نہ سوشل میڈیا تھا نہ الیکٹرانک لیکن اس وقت کے صحافیوں کو کردار ایسا جاندار نظر آتا ہے کہ آج کے صحافی کے لئے مشعل راہ ہے ۔ لیکن آج کل جہاں ہمارے اوپر تساہل اور بے عملی چھائی ہے اس کا ایک مظاہرہ صحافت میں بھی صاف دکھائی دیتا ہے ۔ نہیں نہیں ، میں زبان و بیاں کے اغلاط اور نامکمل معلومات کے ساتھ خبر دینے کی طرف اس تحریر میں کوئی بات نہیں کرنے والا بلکہ میں جو کہنے والا ہوں وہ ان دونوں باتوں سے زیادہ مایوس کن اور صحافتی اقدار کے منافی رویہ کی نشان دہی ہے ۔ 

دیکھئے ، بات کو سمجھنے سے قبل یہ ذہن نشین کر لیجئے کہ صحافت کا ایک بنیادی اصول ہے کہ آپ اپنے کا م کی کامیابی یا ناکامی کا جائزہ عوام کے ردعمل یا فیڈ بیک سے لیتے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ اکثر صحافی جو یہ بات کرتے ہیں کہ جناب "ہم جن اخبارات کے ساتھ منسلک ہیں وہ دراصل ہماری تحریر کو یوں کانٹ چھانٹ کر شائع کرتے ہیں کہ اس کا مفہوم کچھ کا کچھ بن جاتا ہے ۔ اخبارات کی اپنی پالیسی ہوتی ہے یوں وہ ہماری تحریر کی شکل بگاڑ دیتے ہیں "۔ میں ان صحافیوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ نے واقعی تحریر لکھنے میں اپنی پوری استعداد ، تجربہ ، دیانت ، خلوص اور تحقیقی عرق ریزی کی ہے تو آپ کی تحریر آپ کے لئے آپ کی اپنی اولاد کی طرح سے ہے۔ اور کوئی باپ یا ماں کسی کے ہاتھوں اپنی اولاد کو ذبح ہوتے یا اس کے ہاتھ پاؤں ٹوٹتے نہیں دیکھ سکتی۔ اگر آپ کا آجر اخبار آپ کی تحریر کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے تو اس کو روکنے کے لئے کھڑے ہونا ، اس کے خلاف مزاحمت کرنا اور ایسا ہونے سے روکنا آپ کی اولین زمہ داری ہے اور ایک صحافی ہونے کے ناطے آپ پر دہری ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ ایسا نہ ہونے دیں کیونکہ اگر آپ اپنی تحریر کے وجود کا دفاع ہی نہیں کر سکتے تو آپ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف ادا کی جانے والی اپنی ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ بر ا ہو سکتے ہیں ؟ ۔ جبکہ آپ کے خیالات ہی عوام کے سامنے نہیں پہنچنے دئیے جا رہے ، اپ کی کوششوں ، آپ کے تجربے اور آپ کی محنت کو ضائع کیا جا رہا ہے تو آپ کس طرح سے عوام کے حقوق کے لئے اپنے اندر لگن پیدا کریں گے ؟ ۔ 
اگر آپ نے یہاں تک بات سمجھ لی ہے تو اب بات ایک نئے زاوئیے کی طرف مڑتی ہے ۔  ہمارے کچھ صحافی دوست کہتے ہیں کہ چونکہ اخبارات ہماری تحاریر کی شکل بگاڑتے ہیں اس لئے ہم سوشل میڈیا یعنی فیس بک یا بلا گنگ کی طرف رجوع کرتے ہیں تا کہ کسی کانٹ چھانٹ کے بغیر اپنی بات عوام تک پہنچا سکیں ۔ سوشل میڈیا پر ان  صحافی دوستوں کا آنا بہت اچھی بات ہے ،لیکن سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ کیا ہمارے ان صحافی دوستوں نے صحافت کو اختیار کرتے وقت اپنی ذات سے جو عہد و پیماں کئے تھے کہ ہم قلم کی عظمت اور قلم کی طاقت کو تلوار کی دھار پر بھاری ثابت کر کے رہیں گے کیا وہ ایک اخباری پالیسی کے سامنے ڈھیر ہو گئے ؟ اور کیا اخبار جیسا عوامی میڈیا جو نہ صرف تازہ ترین حالت میں روزانہ کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعبے کے افراد تک پہنچتا ہے اور اس کے بعد  یہ تحریریں حکیموں ، پنساریوں کی دکانوں ، سموسوں کی ریڑھیوں اور تندوروں پر روٹی لپیٹ کر چھوٹے شہروں ، قصبوں ، دیہاتوں ، گاؤں اور بستیوں میں معاشرے کے ان افراد تک بھی پہنچتی ہیں جو باقاعدہ اخبار کے قاری نہیں ہوتے ، پر آپ نے سوشل میڈیا کو طاقتور خیال کر لیا  کہ جس تک صرف 16 سے 18 فیصد پاکستانیوں کی رسائی ہے اور ان میں سے بھی اکثر صرف دن بھر کی تھکن اتارنے کے لئے محض تفریح یا چیٹنگ کے لئے ادھر کا رخ کرتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا آپ نے اخبار کے مالکان یا انتظامیہ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ آپ کی محنت پر یوں پانی پھیرنے سے آپ کو کتنی تکلیف ہوتی ہے ؟ دیگر سوالات بھی ذہن میں جگہ بناتے ہیں لیکن یہاں ان پر اس لئے بات نہیں کی جا رہی کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان میں ان خطرناک حالات سے ہے جن کے چلتے ہمارا صحافی بہ مشکل تمام اپنے فرائض ادا کر پاتا ہے بصورت دیگر وہ بھی یہاں بیان کئے جاتے ۔ لیکن کم از کم یہ معاملہ مکمل طور پر صحافی دوستوں کی دسترس میں ہے کہ وہ اپنی لکھی بات کو من و عن عوام تک پہنچانے کے لئے مزید متحرک ہوں اور اپنی تنظیموں کو اس مقصد کے حصول کا ذریعہ بنائیں ۔
چلیں جی اب ہم تھوڑا تقابل کرتے ہیں کہ جب صحافی خود اس پوزیشن میں آ جاتے ہیں کہ ان کی بات مکمل سیاق و سباق کے ساتھ عوام کے سامنے سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہے تو وہ خود اخبارات سے کیوں کر مختلف اور کیوں کر موافق دکھائی دیتے ہیں ۔ بلاگنگ کی طرف جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اردو بلاگنگ اس وقت کافی کمزور حالت میں ہے ۔ اور اس کی یہ کمزوری دراصل بلاگرز کا فیس بک اور ٹویٹر کی طرف التفات ہے کہ جہاں فوری رد عمل ملتا ہے اور بات کم وقت میں زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے اور ایک سبب یہ بھی ہے کہ بلاگ سپاٹ اور ورڈ پریس کی رفتار ہمیشہ سے ہی فیس بک اور ٹویٹر سے کم رہی ہے ۔ پاکستان کہ جہاں ابھی زیادہ تر لوگوں کے پا س سست رفتار نیٹ ہے وہ فیس بک اور ٹویٹر جیسے تیز رفتار میڈیا کو ترجیح دیتے ہیں یوں ان سارے عوامل کے ہوتے پاکستانی اردو صحافیوں کا رجحان بھی اسی روش کا غماز ہے ۔ 
سوشل میڈیا ہر بہت سارے کہنہ مشق اور ان کے علاوہ نئے صحافی بھی موجود ہیں ۔ کچھ صحافی پیشہ ور ہیں تو کچھ جز وقتی صحافت کرتے ہیں ۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ جز وقتی صحافت صرف اور صرف خبر رسانی تک ہی بہتر نتائج دیتی ہے اور معاش کا دیگر ذریعہ اپنانے کے دوران تحقیق و تدقیق کے لئے وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہ دونوں عوامل ایک صحافی  کو کامل تجزیہ نگار بننے اور مسائل کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل تجویز ہیش کرنے کے لئے جزو لاینفک ہیں ۔ عام طور پر سوشل میڈیا پر موجود صحافی دوست ان منفی باتوں سے دور رہتے ہیں جو اکثر فیس بکی دوستوں کے درمیان مشترک ہیں ۔۔۔ یعنی اشتعال اور الزام تراشی ۔ لیکن بہر حال ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے اندر یہ صفت صحافی ہونے کے باوجود موجود ہے ۔ ان میں زیادہ تر نئے صحافی اور ان غیر معروف اخبارات کے لئے کام کرنے والے ہوتے ہیں کہ جو اخبارات صحافت کو بلیک میلنگ اور گروہی پراپیگنڈا کے لئے استعمال کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی منفی صحافت کا ایک المیہ ہے جس پر پھر کبھی بات کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
چند روز قبل ہمارے ایک صحافی دوست یہ فرما رہے تھے کہ ہم صحافی اپنے اخبارات کو جو کالم لکھ کر دیتے ہیں ان میں سے 20 فیصد تک کو وہ سرے سے چھاپنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور بہت سارے کالمز مین مجبور کر کے تبدیلیاں کرواتے ہیں کہ یہ ان کی پالیسی کے مطابق ہو جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر مجھے یہ سہولت حاصل ہے کہ میں جو چاہوں لکھوں اور جو کہنا چاہتا ہوں کہوں لیکن انہوں نے ساتھ ہی ایک بات اور کہہ دی کہ جس کو میری بات پڑھنی ہے پڑھے اور جو نہیں پڑھنا چاہتا وہ مجھے ان فرینڈ کر دے اور جو میری بات پر اعتراض اچھالے میں اسے بلاک کرنے میں دیر نہیں لگاتا ۔ وہ صحافی دوست ابھی مزید کچھ فرما رہے تھے لیکن میں یہ سوچتا رہ گیا کہ فیڈ بیک ( تعریف کی صورت میں ہو یا تنقید کی صورت میں) ایک صحافی کی قیمتی متاع ہوتی ہے اور یہ کیسے صحافی ہیں کہ اپنی متاع سے ہاتھ دھونے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ اعتراض کرنے والے کو میں بلاک کرنے مین دیر نہیں لگاتا ۔ اگر ان صحافی دوست کو اپنے اخبار سے اس کی پالیسی کی وجہ سے شکایات ہیں تو ان کو اس بات کا زیادہ احساس ہونا چاہئیے تھا کہ لکھنے لکھانے کا عمل تنقید کے بغیر نا مکمل ہے تبھی تو وہ اخبارات کی پالیسی پر تنقید کر کے اس عمل کی تکمیل کر رہے تھے اور ستم ظریفی یہ کہ دوسروں کو یہ عمل مکمل کرنے کی آزادی دینے کو وہ تیار نہیں تھے ۔ حالانکہ اب تو دنیا بھر کے تمام پرنٹ میڈیا کے اخبارات ، رسائل اور جرائد فیڈ بیک کی خاطر اپنے آن لائن ایڈیشن بناتے ہیں تا کہ ان کے ہاتھ عوام کی نبض پر رہیں ۔ 
پاکستان میں صحافت کرنا ایک مشکل امر ہے ۔ یہاں کے سیاسی حالات ، معاشی حالات اور سب سے بڑھ کر شرح خواندگی کی کمی صحافیوں کو اظہار رائے میں خاصی احتیاط پر مجبور کرتی ہے اور شاید اخبارات بھی انہی وجوہات کے تحت اپنی پالیسیاں بناتے ہوں گے ۔ لیکن جب آپ سوشل میڈیا پر آ کر  تحریر کی آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو اپنے قاری کو بھی کہنے کی آزادی دیں۔  
پاکستان میں  لکھنے اور کہنے کی جو آزادی ہے وہ دنیا کے کئی آزادی اظہار کے چمپئن سمجھے جانے والے ممالک میں بھی موجود نہیں ہے  ۔  کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہم اس آزادی کو  برداشت ، تحمل اور ذمہ داری کے ساتھ مزید تقویت دیں اور اپنے صحافتی فرائض کی بجا آوری کے لئے ان مواقع سے یوں مستفید ہوں کہ ہماری صحافت معیار  کی بلندیوں سے روشناس ہو سکے ۔  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے شدت پسند گروہ اس آزادی سے ہمیں محروم کرنے کے درپے ہیں اور ہمارے صحافی دوستوں کا فرض ہے کہ ایسے کسی بھی گروہ کے نظریات سے متاثر ہو کر اپنی بنیادی تربیت کے خلاف نہ چلیں ۔

10 comments:

  • May 17, 2015 at 12:02 AM

    اچھی ےتحریر ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ صحافیوں کی ملازمتیں غیر محفوظ ہیں ۔ اس لئے وہ مالکان کے خلاف انتہائی قدم نہیں اٹھا سکتے ۔وہ اپنے کالم کی کانٹ چھانٹ برداشت کر لیتے ہیں ۔ یہاں اصولوں پر چلنا آسان نہیں ۔ مفلسی کا خوف مسلط ہے کارکن صحافیوں پر آخر وہ بھی تو ہم میں سے ہی ہیں ۔

  • May 17, 2015 at 12:39 AM

    فرحان فانی صاحب ، بلاگ پر تشریف لانے اور رائے سے نوازنے کا بہت شکریہ ۔

  • May 17, 2015 at 12:47 AM

    صحافت اب ایک منافع بخش کاروبار ہی نہین بن چکا بلکہ انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے، پس ہر چھوٹی مچھلی کو کھایا جارہا ہےاور بڑی مچھلیوں کی مناپلی چل رہی ہے، پوری دنیا مین یہی حال ہے، ایک مافیا بن چکی ہے صحافت سوشل میڈیا صرف پاکستان مین وجود مین نہین آیا۔

  • May 17, 2015 at 12:49 AM

    ڈاکٹر صاحب ، آپ کی بات سے پوری طرح متفق ہوں ۔

  • May 17, 2015 at 4:42 AM

    صحافت، بلاگنگ یا سوشل میڈیا پر لکھنے کا تقابل کرتے وقت ہمیں چند چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ یہ کہ صحافت اب ایک کاروبار بن چکا ہے اور صحافیوں کی بڑی اکثریت اب نوکری بچانے اور خوشامد کرنے میں اپنا زیادہ وقت صرف کرتی ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ یہ ایک علیحدہ اور طویل بحث ہے۔

    صحافت کے اس رخ کے برعکس بلاگنگ اور سماجی روابط کی ویب سائٹ پر لکھنا فی الوقت اس طرح کا کاروبار نہیں بنا۔ جب اس کو صحافت کے برابر لا کھڑا کیا جائے گا تو یہاں بھی بکنے بکانے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

    آپ نے فیڈبیک کے حوالے سے جو بات کی وہ میرے خیال سے تحریر کا سب سے اہم حصہ ہے۔ تعلیم یافتہ صحافی کو تو اس چیز کی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ عوام کے رجحانات کو کیسے محسوس اور تبدیل کرسکتا ہے اسی لیے دیگر شعبوں سے وابستہ بلاگر اور سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کے مقابلے میں ان میں معاملات سلجھانے کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔

    رہی بات عدم برداشت کی تو اس کے لیے عرض ہے کہ جو چیز گلی کوچوں میں موجود ہو وہ سوشل میڈیا پر بھی ویسی ہی نظر آئے گی

  • May 17, 2015 at 11:14 AM

    محمد اسد صاحب ، بلاگ پر خوش آمدید ۔ آپ نے بالکل درست کہا کہ جو چیز گلی کوچوں میں موجود ہو گی سوشل میڈیا پر بھی ویسی ہی نظر آئے گی ۔

  • May 17, 2015 at 1:10 PM

    بہت اعلیٰ تحریر ۔۔۔ آپ جب بھی لکھتے ہیں کمال کی تحریر لکھتے ہیں

  • May 17, 2015 at 2:22 PM

    واہ۔۔
    شیخ صاحب۔ آپ نے تو صحفات کی نبض پہ ہاتھ رکھ دیا اور کیسا ہاتھ رکھا۔ کہ سواد آگیا۔
    پاکستان میں صحافت محض ایک کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔ جس میں غیر معروف صحافی سب سے زیادہ پس رہے ہیں۔ اور بڑے ناموں اور عام صحافیوں کی مانگ اور مالی وسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
    اسمیں کوئی شک نہیں ایک باضمیر صاحب تحریر کی تحریر کی کانے چھانٹ یا اس میں ردو بدل اسکی تخلیق کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
    اور دوسرا اہم نکتہ ۔ صحفات کی یہ اہم زمہ داری کہ اہل صحافت کا عوام کا نبض شناس ہونے کے لئیے ان کی بات دہیان سے سننا اور توجہ دینا بہت ضروری ہے۔
    جاوید گوندل۔ بارسیلونا

  • May 17, 2015 at 11:38 PM

    نجیب بھائی ، تبصرے کا بہت شکریہ

  • May 17, 2015 at 11:39 PM

    جاوید گوندل صاحب ، متفق ہوں آپ کی رائے سے کہ صحافت اب ایک کاروبار ہے ، مشن نہیں ۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔