Tuesday, January 20, 2015

"گر خامُشی سے فائدہ اخفائے حال ہے "

0 comments
گر خامُشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
-----------------------------------------------
مجھے ہمیشہ سے ایک شکایت رہی ہے کہ من حیث القوم ہم بہت جلد ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں ۔ ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ تو رہے ایک طرف ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اسی سوچ کا پیروکار دکھائی دیتا ہے ۔  ادھر کسی  نے کوئی ایسی بات کہی جو ہمارے شعور یا  توقعات کے خلاف ہو ئی  وہیں ہم بات  کہنے والے کی ایسی تیسی کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں ۔ یہ جانے اور سمجھنے کی تو کوشش ہی نہیں کرتے کہ کہنے والے نے وہ بات کس پیرائے میں کہی ہے ۔
اردو بلاگرز ، پاکستان کے اہل قلم کی  نہایت قابل احترام کمیونٹی ہے ۔ گو کہ خاکسار نے بھی اپنے ٹوٹے پھوٹے خیالات کو کبھی کبھار سپرد قلم کرنے کے لئے ایک ادنی سا بلاگ بنا رکھا ہے لیکن اپنے فطری بے ساختہ پن اور آزاد منش طبیعت کی وجہ سے  کبھی خود کو اس معیار پر  پورا نہیں پایا جوکہ ، فی زمانہ ، ایک کامیاب بلاگر بننے کے لئے درکار ہوتا  ہے ۔ اس  بات کا  مجھے کوئی پچھتاوا ہے نہ رنج  ۔ بلکہ اس کے برعکس مجھ سے بالمشافہ میل ملاقات رکھنے والے احباب جانتے ہیں کہ میں اپنے خیالات کے اظہار میں کس قدر بے وقوفی کی حد تک ہمت کا مظاہرہ کر جاتا ہوں ۔  فیس بُک  اور بلاگ پر آپ احباب مجھے پڑھتے ہیں ، میری سنتے ہیں ، اپنی سناتے ہیں  اور کچھ دوست تو مجھے کھری کھری بھی سنا دیتے ہیں لیکن کبھی کسی دوست سے میں نے محض تنقید ، سیاسی  یا مسلکی وابستگی کی وجہ سے رشتہ نہیں توڑا ۔  ہاں یہ ضرور ہوا کہ چند ایک نے خود ہی مجھے  اپنی دوستی کے دائرے سے باہر نکال دیا لیکن اس پر بھی میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ کسی نے مجھے دائرہ اسلام سے نکالنے کی کوشش نہیں کی  :)
ایسا بھی نہیں ہے کہ میری "بلاکڈ لسٹ " سرے سے  ہے ہی نہیں ۔  یہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اچھی خاصی آباد بھی ہے ۔ لیکن اس کی آبادی صرف ان لوگوں کی بدولت ہے  جو انسانی قتل کو شریعت کا لازمہ گردانتے ہیں  اور قاتلوں کی وکالت کا کام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اس ضمن میں اس سے زیادہ وضاحت  پیش کرنا میں ضروری نہیں سمجھتا ۔ 
میری آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں ، میرے کان جو کچھ سنتے ہیں اور میری حسیات جو کچھ محسوس کرتی ہیں  ؛ دیگر انسانوں کی طرح یہ سب کچھ میرے دل اور دماغ پر اپنےنقوش ثبت  کر جاتا ہے ۔ یہ  میری سوچ کے دائروں کو جہاں وسیع کرتا ہے وہیں ان میں ارتعاش کا سبب بھی بنتا ہے ۔ یہ ارتعاش کبھی کبھار میری تحاریر میں دیکھا بھی کیا جا سکتا ہے اور میری تکلم کے صوتی اثرات میں اس کی تاثیر محسوس بھی کی جا سکتی ہے ۔ حالات و واقعات کی مطابقت سے کبھی کبھار اس ارتعاش کی شدت بڑھتی ہے تو کوئی دوست میری تحریر پر رائے نہ دینے میں  بہتری سمجھتا ہے   یعنی "ایک چپ سو سُکھ"   پر عمل کر گزرتا ہے تو کوئی مجھے ذاتی پیغام میں "محتاط" رہنے کا مشورہ دے کر حق دوستی ادا کر دیتا ہے اور جن کو مجھ سے زیادہ "پیار" ہو یا میری تحریرجس  کسی کے تخیلاتی دائرے سے باہر ہو تو و ہ  دوست مجھے تحریر کو ہٹا دینے کا  کہہ دیتے ہیں اور عام طور پر یہ "کہنا" حکم کے لہجے میں ہوتا ہے ۔ اور اکا دکا واقعات ایسے بھی ہوئے جب مجھے سنگین نتائج  اور"رنگین" انجام کی ای میلز بھی نا معلوم ناموں سے بھیجی گئیں ۔_________ لیکن ، بخدا ، جب سے سوشل میڈیا اور بلاگنگ میں قدم رکھا ہے ،میں نے  مذکورہ بالا کسی بھی طبقے کے دوست سے جوابی طور پر ادنی سی جھڑپ بھی نہیں کی ۔ ان پر کسی قسم کے غدار ، متعصب ، جھوٹے اور اس قماش کے کسی بھی الزام کا گند نہیں اچھالا ۔  اگر کسی ووست سے سلسلہ کلام طیش کا شکار ہوا بھی تو خود کو سرنڈر کر دیا ۔ یوں معاملہ جتنے وقت میں بگڑا تھا اس سے بھی کم وقت میں سدھر گیا ۔
ہر انسان کی طرح میرے بھی کچھ نظریات ہیں ۔ اور قصہ مختصر یہ کہ اگر میں ان نظریات کو مکمل طور پر درست سمجھتا ہوں تو تبھی ان پر کاربند ہوں ۔ میں اپنے نظریات میں ملاوٹ کو سخت نا پسند کرتا ہوں کیونکہ یہ میرے ضابطہ حیات کی اساس ہیں ۔ اسی لئے میں ان نظریات کو بہتر سے بہتر اور خالص رکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ میں روایتی مسلکی بن سکتا ہوں جو اپنے مسلکی  رہنما کی ہر بات پر سر خم کر دے اور نہ ہی روایتی سیاسی کارکن جو اپنے لیڈر کی شان میں زمین آسمان ایک کر دے ۔ میں ان شخصیات پر تنقید کو ناجائز سمجھتا ہوں اور نہ ہی گناہ خیال کرتا ہوں حتی کہ میں اپنی شخصیت پر خود تنقیدی کو پسند کرتا ہوں اور جب کوئی دوست مجھ پر تنقید کرتا ہے تو گویا وہ مجھے مزید بہتر بنانے میں میری مدد کر رہا ہوتا ہے  ۔
مجھے بحث صرف اس صورت میں پسند ہے کہ جس میں تعمیر کا کوئی پہلو ہو ورنہ میری 90 فیصد باتوں اور تحاریر کے پہلو میں ہمیشہ ایک  مسکراتا ہوا شطونگڑا دکھائی دیتا ہے جو اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ  "دل پہ مت لے یار " :)
میں ایک مزدور پیشہ بندہ ہوں لیکن اہل قلم سے شناسائی میرے لئے فخر کی بات ہے ۔ مجھے ہر گز ہرگز اہل قلم ہونے کا دعوی نہیں ہے لیکن اہل قلم سے کچھ شکایات ضرور رہتی ہیں  کہ وہ  کبھی کبھار معاملات کو درست تناظر میں  سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں  یا پھر اپنے اوپر ہونے والے سوال یا تنقید پر خفا ہو جاتے ہیں ۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ اہل قلم اپنی بات کہنے کی بجائے بات منوانے  کو ترجیح دینے لگتے ہیں ۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ اہل قلم جانے یا ان جانے میں  اپنی سوچ کو دوسروں کی سوچ کے تابع کر لیتے ہیں جہاں سے گروہی بالا دستی کے راستے کھلتے ہیں ۔ یہ  اسی قسم کی گروہی بالا دستی ہے جو ہم اپنے ارد گرد ظلم کی شکل میں موجود پاتے ہیں ۔  
خاکسار جب نیا نیا اردو بلاگنگ میں وارد ہوا تھا تو بہت پرجوش تھا اور حقیقت میں اردو بلاگران میں ایسے اعلی لکھاری ، ماہرین فن ، نقاد ، دانش ور ، تکنیکی ماہرین ، مزاح نگار ، سیاسی تجزیہ نگار ، ماہرین زراعت ، اساتذہ  غرضیکہ تمام رائج الوقت علوم کے ماہرین  موجود ہیں جن کو کسی بھی زبان کے بلاگران کے مقابلہ میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔  نا مساعد سیاسی و معاشی حالات کے باوجود ان بلاگران نے خود کو منوایا ۔ کچھ دیگر بلاگر دوستوں کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ اردو بلاگران کو ایک پلیٹ فارم ملے اور ان کی کوئی رجسٹرڈ تنظیم ہو لیکن میری یہ خواہش وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑتی گئی ۔ اس کی بہت ساری وجوہات تھیں جن میں سے ایک وہ بھی تھی جس کا ذکر  میں نے اس تحریر کے ابتدائی پیرے میں کیا ہے ۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ اردو بلاگرز کو اپنی اس کمزوری پر دھیان دینا چاہئیے ۔ ان کو اعتراض کا جواب الزام کی بجائے دلیل سے دینے کی عادت اپنانا چاہئے ۔  محض تعلق داری یا دوستی کی وجہ سے اپنی انفرادی سوچ پر بند نہیں باندھنا چاہیے۔چبھتے سوالات ، تیکھے الزامات ، ٹیڑھے طرز ہائے کلام اور تشنہ طلب معاملات کو کمال مہربانی اور مثبت انداز کار میں نمٹانا چاہیے۔کیونکہ کامیاب اور نامور اہل  علم  و ادب کا یہی شیوہ رہا ہے ۔میں نے اپنی بہت ساری فیس بکی تحاریر میں اس طرف اشارہ کیا کہ ہمارا اردو بلاگر بلاغت تو رکھتا ہے لیکن بلوغت  (معاملہ فہمی) میں قدرے مار کھاتا ہے ۔   اور اسی کا نتیجہ ہے ذرا  سا اختلافی معاملہ بھی اردو بلاگرز کو ایک دوسرے سے الجھا کر رکھ دیتا ہے  ۔ 
اپریل کے ماہ میں کراچی میں اردو کانفرنس ہونے جا رہی ہے ۔ میری بڑی خواہش ہے کہ وہ کانفرنس ماضی کے برعکس کسی سیاسی مقاصد کے الزامات  یا  پھر مسلکی  تناظر کی بجائے خالص اردو کی خدمت اور ترویج کے مقاصد کے تحت منعقد ہو ۔ گو کہ میری کہی ایک بات پر کچھ دوستوں نے مجھے "متعصب" قرار دے ڈالا لیکن  مجھے یقین ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ان کا رد عمل غیر ضروری  اور شدید ہے ۔  اور سچی بات تو یہ ہے کہ وہ بات کہنے کے پیچھے بھی میرا ایک مقصد تھا کہ اپنے دوستوں  کو اس بات کا احساس دلاؤں کہ ہم بلاگران کے اندر جس چیز کی کمی کو میں محسوس کر رہا ہوں وہ کتنی شدت سے اپنے ہونے کا وجود یاد دلاتی ہے لیکن ہم اسے دور کر نے کی بجائے  سوال کرنے والے کو دلیل کی بجائے الزام سے نوازنے کا غیر ادبی رویہ رکھتے ہیں ۔
اردو بلاگنگ ، اب مائکرو بلاگنگ سے کافی متاثر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل مائکرو بلاگنگ کا ہے ۔ کانفرنس کے شرکاء میں کمپیوٹر کے تکنیکی امور کے ماہرین بھی شامل ہوں گے اور ان کا دھیان اس بات پر بھی ہو گا کہ تفصیلی بلاگنگ کے برعکس مائکرو بلاگنگ میں اردو کے لئے ابھی تک بہت کم سہولیات دستیاب ہیں ۔ بلاگ سپاٹ اور ورڈپریس گو کہ مائکرو بلاگنگ کے لئے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں لیکن آج کا مصروف دور اس بات کا متقاضی ہے کہ ایسے گیجٹس بنائے جائیں جن کی بدولت صارف اپنے براؤزر کی بار سے ہی مائکرو ونڈو کے ذریعے  اردو مائکرو بلاگنگ کی پیغام رسانی تک رسائی پا سکے ۔
_______________________مزید باتیں پھر کبھی  ۔


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔