میرے موبائل کی گھنٹی بار بار بج رہی تھی اور مجھے کچھ کچھ اندازہ بھی تھا کہ اس وقت کون مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش میں ہے لیکن میں اپنا موبائل فون جیب سے نکال کر اپنے کان تک لانے سے قاصر تھا ۔ جب آپ بند دروازے کے پیچھے بٹھا دئیے گئے ہوں اور آپ کی شہہ رگ ایک تیز دھار آلے کی زد میں ہو اور تیز دھار آلہ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو کہ جس کی حرکات کی وجہ سے آپ کو "بندر کے ہاتھ میں استرا" والی مثال بار بار یاد آئے تو ایمان سے کہیے گا کہ کیا آپ اپنے جسم کو ادنی سی جنبش دینے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں ؟ ۔ یہ شخص اپنا نام شہزادہ بتا رہا تھا لیکن کام اس کے راجوں بلکہ مہا راجوں والے دکھائی دیتے تھے جو خون ریزی کے رسیا ہوتے تھے ۔اس شخص کا ایک ہاتھ میری گردن پر تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ خطرناک آلہ تھا جو میری شہہ رگ کو آن واحد میں کاٹ دینے کے لئے کافی تھا ۔ بار بار گھنٹی بجنے سے ایک گمان یہ بھی گزرا کہ شاید اس بند دروازے سے باہر حضرت عزرائیل علیہ السلام میری موت کا فرمان لے کر تشریف فرما ہیں اور فون کر کے مجھے ہلنے کی تحریک دے رہے ہیں تا کہ موت کا سبب اپنی تکمیل کو پہنچے ۔ نہ جانے اس کے جیسےاور کتنے خیالات ایک لمحے کے لئے ذہن میں آتے اور پھر ان کی جگہ نئے خیالات میرے دماغ پر قبضہ کرتے رہے ۔ تیز دھار آلے سے مسلح وہ شخص مسلسل مجھے اپنے حصار میں لئے ہوئے تھا اور اس نے اب تک اس آلے سے مجھے چند چھوٹے چھوٹے زخم لگا دئیے تھے جن سے خون بہہ رہا تھا ۔
بند دروازے کے باہر، اٹک شہر میں ، سردیوں کی پہلی بارش ہو رہی تھی ۔ یہ سال 2015 عیسوی کے جنوری مہینے کا 13 واں روز تھا ۔ موسم خنک اور ہوا کافی زیادہ سرد تھی لیکن میں سردی سے زیادہ اس خوف کی وجہ سے ٹھنڈا ہوا جا رہا تھا جو اس تیز دھار آلے سے مسلح شخص کی وجہ سے مجھ پر طاری تھا ۔ جس جگہ مجھے بٹھایا گیا تھا اس کے بیرونی دروازے کا بالائی حصہ سرخ تھا اور اس پر میت کے چہرے جیسی پیلی مائل سفیدی سے لکھا ہوا تھا " لال گرم حمام" ۔
گو کہ میں نے اپنی اٹک آمد کی اطلاع جناب سید شاکر القادری صاحب کو دو روز قبل ہی کر دی تھی اور اس روز پشاور روڈ سے اٹک شہر کے داخلی راستے پر اپنے سفر کے آغاز پر ہی سید صاحب کے استفساری فون پر انہیں مطلع کر دیا تھا کہ میں بس تھوڑی ہی دیر میں آپ کو اٹک شہر کے بس سٹینڈ پر دستیاب ہوں گا ۔ پشاور روڈ، اٹک شہر سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور آج کے موٹری دور میں یہ فاصلہ 15 سے 20 منٹ میں طے ہو جاتا ہے ۔ سید صاحب نے وقت اور فاصلے کا درست اندازہ لگاتے ہوئے مجھے قریب آدھ گھنٹے بعد فون کیا لیکن میں جو "خوب سے خوب تر " نظر آنے کی کوشش میں اپنی گردن ایک استرے کے نیچے دے بیٹھا تھا اب سید صاحب کا فون سننے سے معذور تھا اور استرا بھی کسی عام بندے کے نہیں بلکہ ایک ایسے نائی کے ہاتھ میں تھا جو شاید اس سے قبل کسائی کے پیشے سے وابستہ رہا ہو گا اور انسداد بے رحمی حیوانات کے محکمے نے اسے اس کام کے کرنے سے بوجوہ روک دیا اور اب یہ حضرت اپنے فن کا مظاہرہ انسانی گردنوں پر دکھانے کے لئے اٹک شہر کے بس سٹینڈ پر لال گرم حمام کے نام سے زلف تراشی سے زیادہ چہرہ خراشی کے کام سے وابستہ ہو گئے تھے ۔
مزید 15 منٹ تک یاس و امید کی کش مکش میں مبتلا رکھنے کے بعد ان حضرت کوبالآخر میری ڈھلتی جوانی پر ترس آ ہی گیا ۔ چہرے اور گردن پر ان کی کلا کاری سےبرآمد ہونے والا وہ خون جوقطروں کی صورت میں برس رہا تھا شاید ان کے دل میں رحم پیدا کرنے کا سبب بن گیا تھا ۔انہوں نے استرے کو میری گردن سے پرے ہٹایا ۔ ایک فاتحانہ مسکراہٹ ، جو مجھے مکروہ دکھائی دے رہی تھی ، میرے چہرے پر ڈال کر اپنے مخصوص پوٹھوہاری لہجے میں گویا ہوئے " دانے بوؤں نکلے ہوئے نے چہرے تے " ۔ یہ فقرہ بول کر گویاان صاحب نے میرے چہرے پر لگائے جانے والے زخموں پر نمک چھڑک دیا اور اس پر مستزاد یہ کہ پھٹکڑی کی مدد سے، ان زخموں سے بہتے خون پر ،بندھ باندھنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے ۔ اب چونکہ تیز دھار آلہ مجھ پر سے ہٹا لیا گیا تھا اس لئے میں نے اپنا ہاتھ اپنی جیب کی طرف بڑھایا تا کہ شاکر القادری صاحب سے رابطہ کروں ۔ ہاتھ نے ابھی آدھا سفر ہی طے کیا تھا تو موصوف پھٹکڑی تھراپی کے دوران ہی بول پڑے "40 روپے"۔ میں نے ہاتھ کو وہیں سے واپس دوسری جیب کی طرف موڑا اور جھٹ سے 40 روپے نکال کر اس کے حوالہ کئے تا کہ وہ کسی طرح سے ان سے جان خلاصی کرواؤں۔ ایک لمحے کے لئے موصوف نے نوٹ پکڑ کر اپنے کیش باکس کی راہ لی تو میں نے بجلی کی سی تیزی سے دروازے کی طرف قدم بڑھا دئیے ۔
دروازے سے باہر نکل کر دیکھا تو رم جھم میں موسلادھاری کاٹ پیدا ہو چکی تھی ۔ سید صاحب کو فون کیا ، آپ بیتی کی تفصیل میں جائے بغیر ان سے درخواست کی کہ لاری اڈے کے داخلی دروازے کے کونے میں ہی لال گرم حمام کے سامنے تشریف لے آئیں ۔ شاہ صاحب ، اپنے بلیلے پر سوار ہو کر چند ہی منٹ میں نمودار ہوئے اور میں اپنے چہرے کو رومال سے صاف کرتا ہوا ان کے ساتھ پچھلی سیٹ پر سوار ہو گیا ۔ لیکن میری حالت یہ تھی کہ بار بار منہ پر رومال رکھ رہا تھا اوریہ منظر اگر شاہ صاحب دیکھ لیتے تو بالیقین میرے کریکٹر کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہو جاتے ۔
----------
سید شاکرالقادری صاحب سے ایک مفید ملاقات کا احوال اگلی قسط میں ان شاء اللہ ۔
بہت اعلیٰ اور کمال کی تحریر۔۔۔مزہ آیا پڑھ کر۔۔۔۔ مزاح کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ کی بھرپور عکاسی
آئندہ اٹک کا قصد ہو تو اپنا استرا اور ایک جیبی شیشہ ساتھ رکھیں :)
عمدہ انداز
ساجد صاحب، میرا تعلق بھی اٹک شہر سے ہے. مجھے پتہ ہوتا تو ضرور آپ سے ملاقات کرتا. بہر حال آپ نے اچھا لکھا.