Tuesday, July 29, 2014

سراب کے اسیر

0 comments
میرے گھر کے ارد گرد کی گلیوں میں اتنی زیادہ مساجد ہیں کہ متصلہ چوک کو مساجد سکوائر کہا جا سکتا ہے ۔ ایک گلی میں تو چند قدم کے فاصلے سے دو مختلف مکاتب فکر کی مساجد ہیں اور ہر عیدالفطر پر ان کے درمیان عید کی نماز کے لئے بینر لگانے کا مقابلہ یوں ہوتا ہے کہ اس پر موبائل کمپنیوں جیسی کاروباری رقابت کا گماں گزرتا ہے جبکہ عید الاضحٰی پر اس کشاکش میں " جنگ چرم " کا گھمسان بھی پڑ جاتا ہے ۔ اگر کسی وقت ان مساجد کی مقابلہ بازی کی وجہ سے عقل کے ساتھ ساتھ کچھ بندے بھی اپنی جان سے گزر گئے تو کسی نہ کسی فرقے کے "شہداء" کی تعداد میں اضافہ یقینی ہے اور اگر "شہادت" کا ہما بیک وقت دونوں فرقوں کی منڈیر پر جا بیٹھا تو سمجھ لیجئے کہ پھر بلخ و بخارے کی تمیز ختم ہو جائے گی ۔
 اب ایسی شہادتوں کا خدشہ یوں بھی زیادہ رہتا ہے کہ ہر بندہ ہی اپنے فرقے کی خاطر " جہاد" کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے اور دوران وعظ منبر پر براجمان اپنے " شَیخ یا فاتح مخالفیت" کی طرف فرط عقیدت سے یوں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ جیسے کہہ رہا ہو " دل دیاہے جاں بھی دیں گے اے صنم تیرے لئے " ۔ خاکسار چونکہ اس قبیل کا "فعال" مسلمان نہیں ہے اس لئے مذکورہ دو مساجد کے علاوہ بھی کسی مسجد میں جانے سے ہرگز نہیں ہچکچاتا شاید یہی وجہ ہے کہ خاکسار کو کوئی بھی فرقہ " دلدار و وفادار" نہیں مانتا کیونکہ آج کل "وفاداری بشرط استواری" کا زمانہ ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب خلیل خاں بھی فاختہ اڑانے کی بجائے بندے" اڑانے" لگے ہیں ـــ وہ بھی ٹرپل ٹو سے ۔ سنا ہے کہ پہلے وقتوں میں مسلمانوں کے دشمن کسی "مشکوک" کا زیر جامہ اتار کر یہ دیکھا کرتے تھے کہ اگراس کی " مسلمانی" ہوئی ہے تو اسے پار کر دیا جائے لیکن اب چونکہ ہم سب نے پہلے ہی سے ایک دوسرے کی "اتار کر رکھ دی ہے" اس لئے یہ کشٹ اٹھانے کی حاجت نہیں ہے بس "گھوڑا" دباؤ اور بندہ پھڑکاؤ ۔ اگر پھڑکنے ولا مسلمان ہے تو کوئی بات نہیں کیونکہ داخلی سے لے کر بین الاقوامی سطح پر اس قتل کو قتل مانا ہی نہیں جاتا اور کچھ " بے ہدایت" تو اسے عین سعادت سمجھتے ہیں ـــ مرنے والے اور مارنے والے بھی ۔ اور اگر مارا جانے والا غیر مسلم ہے تو پھر ہم سو جوتے کے ساتھ سو پیاز بھی کھا لیں گے لیکن اپنا لہو گرمانے کے لئے دوسروں کا لہو بہانے سے نہیں رکیں گے تا وقتیکہ کسی دن خود بھی لہو لہو ہو کر کسی سڑک کنارے پڑے مل جائیں یا ہماری باقیات بجلی کے تاروں اور درختوں کی شاخوں پر جا اٹکیں ۔
 وقت کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسے بریکوں کے بغیر تخلیق کیا ہے اور یہ ہمارے لئے کبھی نہیں رُکتا اور نہ ہم اسے روک سکتے ہیں لہذا جب ہم اس کا ساتھ نہیں دیتے تو ہم سے بہت دور نکل چکا ہوتا ہے ۔ لیکن آنے والی نسلیں جو وقت کے ساتھ چل رہی ہوتی ہیں وہ جب ہمارے مساکن و مقاتل کے پاس سے گزرتی ہیں تو پھر تلوار کی بجائے قلم کے نوک سے ہمارے بو سیدہ جسموں کو کھرچتے ہوئے ان پر تحریر کرتی ہیں " یہ باقیات ہیں ان کی جو اپنےوقت کے مہذب ترین لوگ ہوا کرتے تھے لیکن جب انہوں ن ے تہذیب کی جگہ وحشت اپنا لی تو وقت کا ساتھ نہ دے سکے اور ایک دوسرے کو روندتے روندتے سب ختم ہو گئے " ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔