Monday, August 11, 2014

احتیاط لازم ہے

6 comments
وہ بہت خوب صورت تھی ۔ اتنی خوب صورت کہ اس کی ہم عصر اس پر رشک کیا کرتیں ۔ اس کی اعضاء کا تناسب  اور جسم کے ابھار پوری تابانی کے ساتھ دیکھنے والوں کو یوں اپنی طرف متوجہ کر لیتے کہ نظر ہٹانا مشکل ہو جاتا ۔ حسن و خوبصورتی کی پوری قوس قزاح  کے انگ انگ سے  جھلکتی تھی۔ اس کی سبک خرامی کے کیا کہنے ۔ ایسی مستانی چال کی مالک تھی کہ دیکھنے والا اس پر عاشق ہو جائے ۔ اس کا شباب اسے زمین پر پاؤں نہ رکھنے دیتا یو ں لگتا کہ وہ ہواؤں میں اُڑتی چلی جا رہی ہے ۔ وہ گھر سے باہر نکلتی تو ہر کسی کی نظر کا نشانہ بنتی ۔ اس کا حسن و شباب اپنی جگہ پر لیکن ایک مرد کی غیرت کیسے گوارہ کر سکتی ہے کہ اس کی " ملکیت" کو کوئی دوسرا مرد میلی آنکھ سے دیکھے اسی لئے وہ جب بھی اس کے ساتھ گھر سے باہر نکلتا تو اس کے پردے کا خاص  خیال رکھتا ۔ تا کہ اس کے حسن کو کسی کی نظر نہ لگے ۔ وہ اسے زمانے کی نظروں اور حالات کی برائی سے ہر صورت بچا کر رکھا کرتا لیکن وہ اتنی لا پرواہ تھی کہ گھر سے نکلتے ہی اسے نہ اپنے پردے کا ہوش رہتا  نہ اپنی چال پر قابو۔ 
وہ اب کسی حد تک خود سر بھی ہو چکی تھی اور تو اور اب وہ سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگی اور کبھی کبھار کسی سیاسی میٹنگ یا جلسہ میں بھی شرکت کرتی ۔ وہ جہاں بھی جاتی وہیں لوگ اس کی تعریفیں کرتے ۔ جب وہ سیاست میں زیادہ ہی دخیل ہو گئی تو بہت سارے لوگوں کی نظروں میں رہنے لگی اور وہ لوگ اس کی دیگر مصروفیات پر بھی نظر رکھنے لگے ۔ اس کی چند مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے انتظامیہ نے پولیس کو بھی اس پر نظر رکھنے کے آرڈر دے دئے ۔

ایک دن  مرد اسکے ساتھ گھر سے نکلا  تو شاہراہ پر چلتے ہوئے پولیس نے ان دونوں کو روک لیا ۔ پولیس نے مرد سے ضروری دستاویزات طلب کیں لیکن وہ پیش نہ کر سکا ۔ چند منٹ کی بحث و تکرار کے بعد پولیس آفیسر نے فیصلہ سنا دیا کہ چونکہ یہ غیر قانونی سیاسی سرگیوں میں ملوث رہتی ہے اس لئے اسے گرفتار کر کے تھانے لے جانا پڑے گا ۔ مرد نے بہتیرا کہا کہ آپ اسے میرے بغیر تھانے کیسے لے جا سکتے ہیں لیکن پولیس کے پاس معقول عذر تھا کہ تم لوگ کسی بھی دستاویزات کے بغیر پھر رہے ہو اس لئے یہ تو تھانے جائے گی ۔ مرد سے کہہ دیا  گیا کہ تم ضروری دستاویزات لیکر تھانے پہنچو تا کہ اسے اور تمہیں صاحب کے سامنے پیش کیا جا سکے ۔
مرد کو دستاویزات نہیں مل رہی تھیں لیکن وہ ہر روز اس کو تھانے میں جا کر دیکھ آتا ۔ اسے یہ دیکھ کر قدرے اطمینان ہوتا کہ وہہاں وہ اکیلی نہیں ہے بلکہ اس کی دیگر سیاسی ساتھی بھی ہیں جن کو اسی الزام میں وہاں رکھا گیا تھا ۔ 
تین چار روز کی تلاش بسیار کے بعد دستاویزات مرد کو مل ہی گئیں ۔ اب اسے جلدی تھی کہ وہ اسے وقت ضائع کئے بغیر گھر واپس لے آئے نہ جانے وہاں اس کی غیر موجودگی میں اس کے ساتھ پولیس والے کیا سلوک کرتے ہوں گے ۔ کیونکہ تھانے میں چند روز گزارنے سے ہی اس کا حسن ماند پڑ گیا تھا ۔ جسم کی خوبصورتی و تابانی پہلے جیسی نہ رہی تھی ، رنگ روپ  بھی مرجھا گیا تھا اس لئے مرد کو یہ کھٹکا تھا کہ ضرور اس کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے ۔ 
مرد نے بڑے صاحب کے سامنے دستاویزات پیش کیں ۔ بڑا صاحب مرد کے ساتھ چل کر خود اس تک گیا ، اسے تیکھی نظروں سے سر سے پاؤں تک دیکھا اور بڑی ڈھٹائی سے اس کے جسم کو بہانے بہانے سے چھوا ۔ مرف یہ سب دیکھ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔ بالآخر دفتر میں واپس آ کر بڑے صاحب نے اسے منشی کے کمرے میں جانے کو کہا ۔ وہاں منشی نے اس سے اپنا خرچہ پانی لیا   اور بطور خاص یہ وعدہ لیا کہ وہ آج کے بعد سے کسی سیاسی جلسے میں شریک ہو گی نہ کسی سیاسی سرگرمی میں شرکت کرے گی ۔ مرد نے یہ سب کچھ تحریر کر کے دیا کہ وہ اب اسے  ہر قسم کی سیاست سے دور رکھے گا۔ یوں مردکو اسے اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت  مل گئی ۔
لیکن مرد کو جس بات کا ڈر تھا وہ ہو چکی تھی ۔ جب وہ اسے ساتھ لے جانے کے لئے اس کے پاس آیا تو وہ بالکل گم صم اور اداس کھڑی تھی ۔ گویا کہ اس کا سب کچھ لٹ چکا تھا ۔ اس کی رنگت و شوخی تو غائب تھی ہی اس کا جسم بھی خاصا منحنی و مضمحل تھا ۔ جب اسے ہلا جلا کر ہوش میں لایا گیا تو پتہ چلا کہ کہ اس کی آوازبھی بیٹھ چکی ہے ۔ اس کا نطام استخوان شدید متاثر ہو چکا تھا ۔ وہ بغیر سہارے کے کھڑی بھی نہیں ہو پا رہی تھی ۔ بار بار کھانستی اور پھر مردے کی طرح ساکت ہو جاتی ۔  اس کی روشن پیشانی پر ایک بڑا سا گڑھا پڑ چکا تھا ۔ اس کے جسم کے دیگر نطام بھی تباہ ہو چکے تھے کیونکہ اس کے اعضائے خفیفہ و اعضائے رئیسہ کے ساتھ بڑی بے دردی سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی ۔۔  کئی دنوں سے اسے بھوکی رکھا گیا تھا لہذا اس کی حرارت غریزی اب حرارت گریزی کی سطح پر پہنچ چکی تھی ۔ اس کی پشت پر تشدد کے اثرات نمایاں تھے۔ 

مرد بے چارہ مرتا کیا نہ کرتا ۔ اسے ایسی حالت میں وہاں بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔ اس لئے اپنی نئی نویلی ہنڈا 125 یورو 2014 کو اس بری حالت میں ہی گدھا ریڑھی پر لاد کر گھر کو چلتا بنا ۔

Tuesday, July 29, 2014

سراب کے اسیر

0 comments
میرے گھر کے ارد گرد کی گلیوں میں اتنی زیادہ مساجد ہیں کہ متصلہ چوک کو مساجد سکوائر کہا جا سکتا ہے ۔ ایک گلی میں تو چند قدم کے فاصلے سے دو مختلف مکاتب فکر کی مساجد ہیں اور ہر عیدالفطر پر ان کے درمیان عید کی نماز کے لئے بینر لگانے کا مقابلہ یوں ہوتا ہے کہ اس پر موبائل کمپنیوں جیسی کاروباری رقابت کا گماں گزرتا ہے جبکہ عید الاضحٰی پر اس کشاکش میں " جنگ چرم " کا گھمسان بھی پڑ جاتا ہے ۔ اگر کسی وقت ان مساجد کی مقابلہ بازی کی وجہ سے عقل کے ساتھ ساتھ کچھ بندے بھی اپنی جان سے گزر گئے تو کسی نہ کسی فرقے کے "شہداء" کی تعداد میں اضافہ یقینی ہے اور اگر "شہادت" کا ہما بیک وقت دونوں فرقوں کی منڈیر پر جا بیٹھا تو سمجھ لیجئے کہ پھر بلخ و بخارے کی تمیز ختم ہو جائے گی ۔
 اب ایسی شہادتوں کا خدشہ یوں بھی زیادہ رہتا ہے کہ ہر بندہ ہی اپنے فرقے کی خاطر " جہاد" کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے اور دوران وعظ منبر پر براجمان اپنے " شَیخ یا فاتح مخالفیت" کی طرف فرط عقیدت سے یوں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ جیسے کہہ رہا ہو " دل دیاہے جاں بھی دیں گے اے صنم تیرے لئے " ۔ خاکسار چونکہ اس قبیل کا "فعال" مسلمان نہیں ہے اس لئے مذکورہ دو مساجد کے علاوہ بھی کسی مسجد میں جانے سے ہرگز نہیں ہچکچاتا شاید یہی وجہ ہے کہ خاکسار کو کوئی بھی فرقہ " دلدار و وفادار" نہیں مانتا کیونکہ آج کل "وفاداری بشرط استواری" کا زمانہ ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب خلیل خاں بھی فاختہ اڑانے کی بجائے بندے" اڑانے" لگے ہیں ـــ وہ بھی ٹرپل ٹو سے ۔ سنا ہے کہ پہلے وقتوں میں مسلمانوں کے دشمن کسی "مشکوک" کا زیر جامہ اتار کر یہ دیکھا کرتے تھے کہ اگراس کی " مسلمانی" ہوئی ہے تو اسے پار کر دیا جائے لیکن اب چونکہ ہم سب نے پہلے ہی سے ایک دوسرے کی "اتار کر رکھ دی ہے" اس لئے یہ کشٹ اٹھانے کی حاجت نہیں ہے بس "گھوڑا" دباؤ اور بندہ پھڑکاؤ ۔ اگر پھڑکنے ولا مسلمان ہے تو کوئی بات نہیں کیونکہ داخلی سے لے کر بین الاقوامی سطح پر اس قتل کو قتل مانا ہی نہیں جاتا اور کچھ " بے ہدایت" تو اسے عین سعادت سمجھتے ہیں ـــ مرنے والے اور مارنے والے بھی ۔ اور اگر مارا جانے والا غیر مسلم ہے تو پھر ہم سو جوتے کے ساتھ سو پیاز بھی کھا لیں گے لیکن اپنا لہو گرمانے کے لئے دوسروں کا لہو بہانے سے نہیں رکیں گے تا وقتیکہ کسی دن خود بھی لہو لہو ہو کر کسی سڑک کنارے پڑے مل جائیں یا ہماری باقیات بجلی کے تاروں اور درختوں کی شاخوں پر جا اٹکیں ۔
 وقت کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسے بریکوں کے بغیر تخلیق کیا ہے اور یہ ہمارے لئے کبھی نہیں رُکتا اور نہ ہم اسے روک سکتے ہیں لہذا جب ہم اس کا ساتھ نہیں دیتے تو ہم سے بہت دور نکل چکا ہوتا ہے ۔ لیکن آنے والی نسلیں جو وقت کے ساتھ چل رہی ہوتی ہیں وہ جب ہمارے مساکن و مقاتل کے پاس سے گزرتی ہیں تو پھر تلوار کی بجائے قلم کے نوک سے ہمارے بو سیدہ جسموں کو کھرچتے ہوئے ان پر تحریر کرتی ہیں " یہ باقیات ہیں ان کی جو اپنےوقت کے مہذب ترین لوگ ہوا کرتے تھے لیکن جب انہوں ن ے تہذیب کی جگہ وحشت اپنا لی تو وقت کا ساتھ نہ دے سکے اور ایک دوسرے کو روندتے روندتے سب ختم ہو گئے " ۔