Saturday, May 16, 2015

صحافت , صحافی کا کرداراور سوشل میڈیا

10 comments
صحافی 
ایک خبر رساں نمائندہ ہی نہیں ہوتا اور اگر کوئی دوسرا یا وہ کوئی صحافی خود کو صرف خبر رساں سمجھتا ہے تو وہ سرے سے غلط سمجھتا ہے ۔ صحافی گو کہ ایک فرد ہوتا ہے لیکن دراصل وہ اپنے آپ میں ایک تحریک کا درجہ رکھتا ہے وہ تحریک جو معاشرے میں پائے جانے والی ناہمواریوں کو ایک عام آدمی کے سامنے لانے کے لئے ہمہ دم کوشاں رہتی ہے اور اس کے حل کے لئے اپنے قلم کو یوں استعماال کرتی ہے کہ وہ جہاں تلوار سے زیادہ کاٹ دار نظر آتا ہے وہیں ایک   شیریں زبان مصلح کا روپ بھی دھارتا ہے ۔
تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے ادوار میں اردو صحافت اپنے معیار اور کام کے حوالے سے بلندی پر تھی ۔ تب نہ سوشل میڈیا تھا نہ الیکٹرانک لیکن اس وقت کے صحافیوں کو کردار ایسا جاندار نظر آتا ہے کہ آج کے صحافی کے لئے مشعل راہ ہے ۔ لیکن آج کل جہاں ہمارے اوپر تساہل اور بے عملی چھائی ہے اس کا ایک مظاہرہ صحافت میں بھی صاف دکھائی دیتا ہے ۔ نہیں نہیں ، میں زبان و بیاں کے اغلاط اور نامکمل معلومات کے ساتھ خبر دینے کی طرف اس تحریر میں کوئی بات نہیں کرنے والا بلکہ میں جو کہنے والا ہوں وہ ان دونوں باتوں سے زیادہ مایوس کن اور صحافتی اقدار کے منافی رویہ کی نشان دہی ہے ۔ 

دیکھئے ، بات کو سمجھنے سے قبل یہ ذہن نشین کر لیجئے کہ صحافت کا ایک بنیادی اصول ہے کہ آپ اپنے کا م کی کامیابی یا ناکامی کا جائزہ عوام کے ردعمل یا فیڈ بیک سے لیتے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ اکثر صحافی جو یہ بات کرتے ہیں کہ جناب "ہم جن اخبارات کے ساتھ منسلک ہیں وہ دراصل ہماری تحریر کو یوں کانٹ چھانٹ کر شائع کرتے ہیں کہ اس کا مفہوم کچھ کا کچھ بن جاتا ہے ۔ اخبارات کی اپنی پالیسی ہوتی ہے یوں وہ ہماری تحریر کی شکل بگاڑ دیتے ہیں "۔ میں ان صحافیوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ نے واقعی تحریر لکھنے میں اپنی پوری استعداد ، تجربہ ، دیانت ، خلوص اور تحقیقی عرق ریزی کی ہے تو آپ کی تحریر آپ کے لئے آپ کی اپنی اولاد کی طرح سے ہے۔ اور کوئی باپ یا ماں کسی کے ہاتھوں اپنی اولاد کو ذبح ہوتے یا اس کے ہاتھ پاؤں ٹوٹتے نہیں دیکھ سکتی۔ اگر آپ کا آجر اخبار آپ کی تحریر کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے تو اس کو روکنے کے لئے کھڑے ہونا ، اس کے خلاف مزاحمت کرنا اور ایسا ہونے سے روکنا آپ کی اولین زمہ داری ہے اور ایک صحافی ہونے کے ناطے آپ پر دہری ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ ایسا نہ ہونے دیں کیونکہ اگر آپ اپنی تحریر کے وجود کا دفاع ہی نہیں کر سکتے تو آپ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف ادا کی جانے والی اپنی ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ بر ا ہو سکتے ہیں ؟ ۔ جبکہ آپ کے خیالات ہی عوام کے سامنے نہیں پہنچنے دئیے جا رہے ، اپ کی کوششوں ، آپ کے تجربے اور آپ کی محنت کو ضائع کیا جا رہا ہے تو آپ کس طرح سے عوام کے حقوق کے لئے اپنے اندر لگن پیدا کریں گے ؟ ۔ 
اگر آپ نے یہاں تک بات سمجھ لی ہے تو اب بات ایک نئے زاوئیے کی طرف مڑتی ہے ۔  ہمارے کچھ صحافی دوست کہتے ہیں کہ چونکہ اخبارات ہماری تحاریر کی شکل بگاڑتے ہیں اس لئے ہم سوشل میڈیا یعنی فیس بک یا بلا گنگ کی طرف رجوع کرتے ہیں تا کہ کسی کانٹ چھانٹ کے بغیر اپنی بات عوام تک پہنچا سکیں ۔ سوشل میڈیا پر ان  صحافی دوستوں کا آنا بہت اچھی بات ہے ،لیکن سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ کیا ہمارے ان صحافی دوستوں نے صحافت کو اختیار کرتے وقت اپنی ذات سے جو عہد و پیماں کئے تھے کہ ہم قلم کی عظمت اور قلم کی طاقت کو تلوار کی دھار پر بھاری ثابت کر کے رہیں گے کیا وہ ایک اخباری پالیسی کے سامنے ڈھیر ہو گئے ؟ اور کیا اخبار جیسا عوامی میڈیا جو نہ صرف تازہ ترین حالت میں روزانہ کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعبے کے افراد تک پہنچتا ہے اور اس کے بعد  یہ تحریریں حکیموں ، پنساریوں کی دکانوں ، سموسوں کی ریڑھیوں اور تندوروں پر روٹی لپیٹ کر چھوٹے شہروں ، قصبوں ، دیہاتوں ، گاؤں اور بستیوں میں معاشرے کے ان افراد تک بھی پہنچتی ہیں جو باقاعدہ اخبار کے قاری نہیں ہوتے ، پر آپ نے سوشل میڈیا کو طاقتور خیال کر لیا  کہ جس تک صرف 16 سے 18 فیصد پاکستانیوں کی رسائی ہے اور ان میں سے بھی اکثر صرف دن بھر کی تھکن اتارنے کے لئے محض تفریح یا چیٹنگ کے لئے ادھر کا رخ کرتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا آپ نے اخبار کے مالکان یا انتظامیہ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ آپ کی محنت پر یوں پانی پھیرنے سے آپ کو کتنی تکلیف ہوتی ہے ؟ دیگر سوالات بھی ذہن میں جگہ بناتے ہیں لیکن یہاں ان پر اس لئے بات نہیں کی جا رہی کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان میں ان خطرناک حالات سے ہے جن کے چلتے ہمارا صحافی بہ مشکل تمام اپنے فرائض ادا کر پاتا ہے بصورت دیگر وہ بھی یہاں بیان کئے جاتے ۔ لیکن کم از کم یہ معاملہ مکمل طور پر صحافی دوستوں کی دسترس میں ہے کہ وہ اپنی لکھی بات کو من و عن عوام تک پہنچانے کے لئے مزید متحرک ہوں اور اپنی تنظیموں کو اس مقصد کے حصول کا ذریعہ بنائیں ۔
چلیں جی اب ہم تھوڑا تقابل کرتے ہیں کہ جب صحافی خود اس پوزیشن میں آ جاتے ہیں کہ ان کی بات مکمل سیاق و سباق کے ساتھ عوام کے سامنے سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہے تو وہ خود اخبارات سے کیوں کر مختلف اور کیوں کر موافق دکھائی دیتے ہیں ۔ بلاگنگ کی طرف جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اردو بلاگنگ اس وقت کافی کمزور حالت میں ہے ۔ اور اس کی یہ کمزوری دراصل بلاگرز کا فیس بک اور ٹویٹر کی طرف التفات ہے کہ جہاں فوری رد عمل ملتا ہے اور بات کم وقت میں زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے اور ایک سبب یہ بھی ہے کہ بلاگ سپاٹ اور ورڈ پریس کی رفتار ہمیشہ سے ہی فیس بک اور ٹویٹر سے کم رہی ہے ۔ پاکستان کہ جہاں ابھی زیادہ تر لوگوں کے پا س سست رفتار نیٹ ہے وہ فیس بک اور ٹویٹر جیسے تیز رفتار میڈیا کو ترجیح دیتے ہیں یوں ان سارے عوامل کے ہوتے پاکستانی اردو صحافیوں کا رجحان بھی اسی روش کا غماز ہے ۔ 
سوشل میڈیا ہر بہت سارے کہنہ مشق اور ان کے علاوہ نئے صحافی بھی موجود ہیں ۔ کچھ صحافی پیشہ ور ہیں تو کچھ جز وقتی صحافت کرتے ہیں ۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ جز وقتی صحافت صرف اور صرف خبر رسانی تک ہی بہتر نتائج دیتی ہے اور معاش کا دیگر ذریعہ اپنانے کے دوران تحقیق و تدقیق کے لئے وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہ دونوں عوامل ایک صحافی  کو کامل تجزیہ نگار بننے اور مسائل کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل تجویز ہیش کرنے کے لئے جزو لاینفک ہیں ۔ عام طور پر سوشل میڈیا پر موجود صحافی دوست ان منفی باتوں سے دور رہتے ہیں جو اکثر فیس بکی دوستوں کے درمیان مشترک ہیں ۔۔۔ یعنی اشتعال اور الزام تراشی ۔ لیکن بہر حال ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے اندر یہ صفت صحافی ہونے کے باوجود موجود ہے ۔ ان میں زیادہ تر نئے صحافی اور ان غیر معروف اخبارات کے لئے کام کرنے والے ہوتے ہیں کہ جو اخبارات صحافت کو بلیک میلنگ اور گروہی پراپیگنڈا کے لئے استعمال کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی منفی صحافت کا ایک المیہ ہے جس پر پھر کبھی بات کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
چند روز قبل ہمارے ایک صحافی دوست یہ فرما رہے تھے کہ ہم صحافی اپنے اخبارات کو جو کالم لکھ کر دیتے ہیں ان میں سے 20 فیصد تک کو وہ سرے سے چھاپنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور بہت سارے کالمز مین مجبور کر کے تبدیلیاں کرواتے ہیں کہ یہ ان کی پالیسی کے مطابق ہو جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر مجھے یہ سہولت حاصل ہے کہ میں جو چاہوں لکھوں اور جو کہنا چاہتا ہوں کہوں لیکن انہوں نے ساتھ ہی ایک بات اور کہہ دی کہ جس کو میری بات پڑھنی ہے پڑھے اور جو نہیں پڑھنا چاہتا وہ مجھے ان فرینڈ کر دے اور جو میری بات پر اعتراض اچھالے میں اسے بلاک کرنے میں دیر نہیں لگاتا ۔ وہ صحافی دوست ابھی مزید کچھ فرما رہے تھے لیکن میں یہ سوچتا رہ گیا کہ فیڈ بیک ( تعریف کی صورت میں ہو یا تنقید کی صورت میں) ایک صحافی کی قیمتی متاع ہوتی ہے اور یہ کیسے صحافی ہیں کہ اپنی متاع سے ہاتھ دھونے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ اعتراض کرنے والے کو میں بلاک کرنے مین دیر نہیں لگاتا ۔ اگر ان صحافی دوست کو اپنے اخبار سے اس کی پالیسی کی وجہ سے شکایات ہیں تو ان کو اس بات کا زیادہ احساس ہونا چاہئیے تھا کہ لکھنے لکھانے کا عمل تنقید کے بغیر نا مکمل ہے تبھی تو وہ اخبارات کی پالیسی پر تنقید کر کے اس عمل کی تکمیل کر رہے تھے اور ستم ظریفی یہ کہ دوسروں کو یہ عمل مکمل کرنے کی آزادی دینے کو وہ تیار نہیں تھے ۔ حالانکہ اب تو دنیا بھر کے تمام پرنٹ میڈیا کے اخبارات ، رسائل اور جرائد فیڈ بیک کی خاطر اپنے آن لائن ایڈیشن بناتے ہیں تا کہ ان کے ہاتھ عوام کی نبض پر رہیں ۔ 
پاکستان میں صحافت کرنا ایک مشکل امر ہے ۔ یہاں کے سیاسی حالات ، معاشی حالات اور سب سے بڑھ کر شرح خواندگی کی کمی صحافیوں کو اظہار رائے میں خاصی احتیاط پر مجبور کرتی ہے اور شاید اخبارات بھی انہی وجوہات کے تحت اپنی پالیسیاں بناتے ہوں گے ۔ لیکن جب آپ سوشل میڈیا پر آ کر  تحریر کی آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو اپنے قاری کو بھی کہنے کی آزادی دیں۔  
پاکستان میں  لکھنے اور کہنے کی جو آزادی ہے وہ دنیا کے کئی آزادی اظہار کے چمپئن سمجھے جانے والے ممالک میں بھی موجود نہیں ہے  ۔  کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہم اس آزادی کو  برداشت ، تحمل اور ذمہ داری کے ساتھ مزید تقویت دیں اور اپنے صحافتی فرائض کی بجا آوری کے لئے ان مواقع سے یوں مستفید ہوں کہ ہماری صحافت معیار  کی بلندیوں سے روشناس ہو سکے ۔  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے شدت پسند گروہ اس آزادی سے ہمیں محروم کرنے کے درپے ہیں اور ہمارے صحافی دوستوں کا فرض ہے کہ ایسے کسی بھی گروہ کے نظریات سے متاثر ہو کر اپنی بنیادی تربیت کے خلاف نہ چلیں ۔

Thursday, February 12, 2015

قصہ شش درویش

0 comments
ہوا کچھ یوں کہ جب ہم اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے تو ہمارے سامنے ایک عدد مینو پیش کر دیا گیا ۔ اخباری کاغذ پر چھپی اس فہرست کو ہماری فہم تو مینو ماننے سے انکاری تھی لیکن اس چار صفحی فہرست کے اندرونی 2 صفحات پر کھانے پینے کی چند چیزوں کے نام دیکھ کر چار و نا چار اس پر نظر دوڑانے لگے ، لیکن کوئی ڈش (کھانا) دل کو نہ بھائی ۔ ورق الٹ کر بیرونی صفحات کی طرف جھانکا تو میاں شہباز شریف کی لہراتی انگلی والی تصویر سے مڈ بھیڑ ہو گئی ۔ اب آپ ہی انصاف فرمائیے کہ بندہ گھر سے کھانے کے لئے نکلے اور مینو میں اسے انگلی پیش کر دی جائے تو اس سے زیادہ سنگین مذاق کیا ہو گا ؟ ۔ میاں صاحب کی انگلی سے بچے تو اپنے سامنے ایک  مزید "قرطاس ابیض" موجود پایا ۔ یہ بکس بورڈ(سفید گتے) کا ایک ورق تھا ۔ اسے بغور دیکھا تو آشکار ہوا کہ یہ ایک اور مینو ہے ۔ سگریٹ کے کثیف دھوئیں سے آلودہ انتہائی کم اونچائی کی چھت والے ہال کی بالائی منزل میں جہاں  دھوئیں کی  گھٹن ، سستے عطر نسائی (لیڈیز پرفیوم) کی بواور دوستوں کی بلا توقف جگت بازی کے دوران مجھ جیسے سادے آدمی کی ذہنی کیفیت پہلے ہی سے ایسی ہو جاتی ہے جسے انگریز نے فرسٹریشن کا نام دے رکھا ہے ، اس پر مستزاد کہ دو دو مینوز میں سے کھانے کا انتخاب کرنا پڑ جائے وہ بھی لہراتی انگلی دیکھ دیکھ کر۔۔۔ ظلم تو ہے نا ؟؟؟ ۔
خیر اپنے حواس کو مجتمع کرتے ہوئے اپنے قریب کھڑے بیرے پر بھرپور نگاہ ڈال کر اپنے اعتماد کو بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی اور مینو پر نظر جمائے اس سے پوچھ لیا " یار یہ بکس بورڈ کے مینو کے آخر میں کون سی ڈش ہے' ؟ ۔ اس نے کسی روبوٹ کی طرح کھڑے اور تنے رہ کر جواب دیا " یہ ببلی بریانی ہے" !۔ جواب سُن کر دماغ آؤٹ ہو گیا کہ یہ کم بخت ببلی تو بد معاش ہوا کرتی تھی یہاں مینو میں اس نا ہنجار کا کیا کام ۔ بیرے کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ اپنے کان کو ہمارے منہ کی سطح پر لے آئے لیکن وہ کم بخت ہمارے ہاتھ کے اشارے کو پاکستان ہاکی ٹیم  کے کھلاڑی والا "فحش" اشارہ سمجھ بیٹھا ۔ اس کے چہرے پر پھیلتی ناگواری کو دیکھتے ہوئے اب کی بار مٹھی کھول کر انگلیوں کی حرکت سے اشارے کی وضاحت کی تو اس نے رکوع کی حالت میں جھک کر بات سننے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے کان کے قریب منہ کر کے پوچھا " یار ، یہ بتاؤ یہ جو ببلی بریانی ہے کیا یہ ببلی نے بنائی ہے یا بریانی کے ساتھ ببلی بھی پیش کی جاتی ہے " ؟ ۔ ابھی میری بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ پھر سے اس تیزی سے پہلے والی حالت میں آ گیا کہ میری بات میں شاید بجلی کا کرنٹ تھا ۔ 
میرے دوستوں کی ایک بہت اچھی خاصیت ہے کہ ان کی بصارت اور سماعت ایسے رنگین و سنگین  مواقع پر قابل رشک بلکہ  قابل دید ہوتی ہے ۔ اگرچہ سڑک پر چلتے ہوئے ان کو ٹرک کا ہارن بھی سنائی نہیں دیتا لیکن اس ہال میں پہنچتے ہی کوئی نقرئی قہقہہ ہال کے آخری کونے پر گونجے تو یہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہال میں یہ تک بتا دیتے ہیں کہ یہ قہقہہ کون سی میز سے کس مہہ جبین کا تھا ۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ بیرے سے ہونے والی میری گفتگو ان کی سماعتوں سے محفوظ رہتی ۔ ببلی کا نام سنتے ہیں لینکس والے مولوی سعد صاحب سر نیہوڑا کر کچھ شرما گئے لیکن بعد میں معلوم ہوا یہ شرم نہیں تھی بلکہ مینو پر نظر ڈالی گئی تھی کہ ببلی کے علاوہ کوئی شیلا یا رضیہ برییانی بھی دستیاب ہے یا نہیں ۔ نجیب عالم بھائی نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا " یار ، کچھ بھی لے آ ۔ بے شک پپو بریانی لے آ" ۔ محمد عبداللہ چونکہ ابھی نوجوان ہیں اس لئے ببلی اور پپو کا نام سُن کر ان کو تو حق حاصل ہو گیا تھا کہ چاروں طرف گردن گھما کر کسی ببلی یا پپو کو تلاش کرنے لگے ۔ عاطف بٹ صاحب چونکہ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور استاد بھی ہیں اس لئے ان کا "طریقہ واردات" بھی استادانہ ہی تھا ۔ 45 رجے پر گردن جھکا کر آنکھوں کا زاویہ 135 درجے پر فٹ کر کے انہوں نے جھکی جھکی اکھیوں سے کالے کجروں اور پھولوں کے گجروں کو سلام کر لیا ۔
مزید احوال اگلی قسط میں 

Tuesday, January 20, 2015

"گر خامُشی سے فائدہ اخفائے حال ہے "

0 comments
گر خامُشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
-----------------------------------------------
مجھے ہمیشہ سے ایک شکایت رہی ہے کہ من حیث القوم ہم بہت جلد ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں ۔ ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ تو رہے ایک طرف ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اسی سوچ کا پیروکار دکھائی دیتا ہے ۔  ادھر کسی  نے کوئی ایسی بات کہی جو ہمارے شعور یا  توقعات کے خلاف ہو ئی  وہیں ہم بات  کہنے والے کی ایسی تیسی کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں ۔ یہ جانے اور سمجھنے کی تو کوشش ہی نہیں کرتے کہ کہنے والے نے وہ بات کس پیرائے میں کہی ہے ۔
اردو بلاگرز ، پاکستان کے اہل قلم کی  نہایت قابل احترام کمیونٹی ہے ۔ گو کہ خاکسار نے بھی اپنے ٹوٹے پھوٹے خیالات کو کبھی کبھار سپرد قلم کرنے کے لئے ایک ادنی سا بلاگ بنا رکھا ہے لیکن اپنے فطری بے ساختہ پن اور آزاد منش طبیعت کی وجہ سے  کبھی خود کو اس معیار پر  پورا نہیں پایا جوکہ ، فی زمانہ ، ایک کامیاب بلاگر بننے کے لئے درکار ہوتا  ہے ۔ اس  بات کا  مجھے کوئی پچھتاوا ہے نہ رنج  ۔ بلکہ اس کے برعکس مجھ سے بالمشافہ میل ملاقات رکھنے والے احباب جانتے ہیں کہ میں اپنے خیالات کے اظہار میں کس قدر بے وقوفی کی حد تک ہمت کا مظاہرہ کر جاتا ہوں ۔  فیس بُک  اور بلاگ پر آپ احباب مجھے پڑھتے ہیں ، میری سنتے ہیں ، اپنی سناتے ہیں  اور کچھ دوست تو مجھے کھری کھری بھی سنا دیتے ہیں لیکن کبھی کسی دوست سے میں نے محض تنقید ، سیاسی  یا مسلکی وابستگی کی وجہ سے رشتہ نہیں توڑا ۔  ہاں یہ ضرور ہوا کہ چند ایک نے خود ہی مجھے  اپنی دوستی کے دائرے سے باہر نکال دیا لیکن اس پر بھی میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ کسی نے مجھے دائرہ اسلام سے نکالنے کی کوشش نہیں کی  :)
ایسا بھی نہیں ہے کہ میری "بلاکڈ لسٹ " سرے سے  ہے ہی نہیں ۔  یہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اچھی خاصی آباد بھی ہے ۔ لیکن اس کی آبادی صرف ان لوگوں کی بدولت ہے  جو انسانی قتل کو شریعت کا لازمہ گردانتے ہیں  اور قاتلوں کی وکالت کا کام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اس ضمن میں اس سے زیادہ وضاحت  پیش کرنا میں ضروری نہیں سمجھتا ۔ 
میری آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں ، میرے کان جو کچھ سنتے ہیں اور میری حسیات جو کچھ محسوس کرتی ہیں  ؛ دیگر انسانوں کی طرح یہ سب کچھ میرے دل اور دماغ پر اپنےنقوش ثبت  کر جاتا ہے ۔ یہ  میری سوچ کے دائروں کو جہاں وسیع کرتا ہے وہیں ان میں ارتعاش کا سبب بھی بنتا ہے ۔ یہ ارتعاش کبھی کبھار میری تحاریر میں دیکھا بھی کیا جا سکتا ہے اور میری تکلم کے صوتی اثرات میں اس کی تاثیر محسوس بھی کی جا سکتی ہے ۔ حالات و واقعات کی مطابقت سے کبھی کبھار اس ارتعاش کی شدت بڑھتی ہے تو کوئی دوست میری تحریر پر رائے نہ دینے میں  بہتری سمجھتا ہے   یعنی "ایک چپ سو سُکھ"   پر عمل کر گزرتا ہے تو کوئی مجھے ذاتی پیغام میں "محتاط" رہنے کا مشورہ دے کر حق دوستی ادا کر دیتا ہے اور جن کو مجھ سے زیادہ "پیار" ہو یا میری تحریرجس  کسی کے تخیلاتی دائرے سے باہر ہو تو و ہ  دوست مجھے تحریر کو ہٹا دینے کا  کہہ دیتے ہیں اور عام طور پر یہ "کہنا" حکم کے لہجے میں ہوتا ہے ۔ اور اکا دکا واقعات ایسے بھی ہوئے جب مجھے سنگین نتائج  اور"رنگین" انجام کی ای میلز بھی نا معلوم ناموں سے بھیجی گئیں ۔_________ لیکن ، بخدا ، جب سے سوشل میڈیا اور بلاگنگ میں قدم رکھا ہے ،میں نے  مذکورہ بالا کسی بھی طبقے کے دوست سے جوابی طور پر ادنی سی جھڑپ بھی نہیں کی ۔ ان پر کسی قسم کے غدار ، متعصب ، جھوٹے اور اس قماش کے کسی بھی الزام کا گند نہیں اچھالا ۔  اگر کسی ووست سے سلسلہ کلام طیش کا شکار ہوا بھی تو خود کو سرنڈر کر دیا ۔ یوں معاملہ جتنے وقت میں بگڑا تھا اس سے بھی کم وقت میں سدھر گیا ۔
ہر انسان کی طرح میرے بھی کچھ نظریات ہیں ۔ اور قصہ مختصر یہ کہ اگر میں ان نظریات کو مکمل طور پر درست سمجھتا ہوں تو تبھی ان پر کاربند ہوں ۔ میں اپنے نظریات میں ملاوٹ کو سخت نا پسند کرتا ہوں کیونکہ یہ میرے ضابطہ حیات کی اساس ہیں ۔ اسی لئے میں ان نظریات کو بہتر سے بہتر اور خالص رکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ میں روایتی مسلکی بن سکتا ہوں جو اپنے مسلکی  رہنما کی ہر بات پر سر خم کر دے اور نہ ہی روایتی سیاسی کارکن جو اپنے لیڈر کی شان میں زمین آسمان ایک کر دے ۔ میں ان شخصیات پر تنقید کو ناجائز سمجھتا ہوں اور نہ ہی گناہ خیال کرتا ہوں حتی کہ میں اپنی شخصیت پر خود تنقیدی کو پسند کرتا ہوں اور جب کوئی دوست مجھ پر تنقید کرتا ہے تو گویا وہ مجھے مزید بہتر بنانے میں میری مدد کر رہا ہوتا ہے  ۔
مجھے بحث صرف اس صورت میں پسند ہے کہ جس میں تعمیر کا کوئی پہلو ہو ورنہ میری 90 فیصد باتوں اور تحاریر کے پہلو میں ہمیشہ ایک  مسکراتا ہوا شطونگڑا دکھائی دیتا ہے جو اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ  "دل پہ مت لے یار " :)
میں ایک مزدور پیشہ بندہ ہوں لیکن اہل قلم سے شناسائی میرے لئے فخر کی بات ہے ۔ مجھے ہر گز ہرگز اہل قلم ہونے کا دعوی نہیں ہے لیکن اہل قلم سے کچھ شکایات ضرور رہتی ہیں  کہ وہ  کبھی کبھار معاملات کو درست تناظر میں  سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں  یا پھر اپنے اوپر ہونے والے سوال یا تنقید پر خفا ہو جاتے ہیں ۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ اہل قلم اپنی بات کہنے کی بجائے بات منوانے  کو ترجیح دینے لگتے ہیں ۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ اہل قلم جانے یا ان جانے میں  اپنی سوچ کو دوسروں کی سوچ کے تابع کر لیتے ہیں جہاں سے گروہی بالا دستی کے راستے کھلتے ہیں ۔ یہ  اسی قسم کی گروہی بالا دستی ہے جو ہم اپنے ارد گرد ظلم کی شکل میں موجود پاتے ہیں ۔  
خاکسار جب نیا نیا اردو بلاگنگ میں وارد ہوا تھا تو بہت پرجوش تھا اور حقیقت میں اردو بلاگران میں ایسے اعلی لکھاری ، ماہرین فن ، نقاد ، دانش ور ، تکنیکی ماہرین ، مزاح نگار ، سیاسی تجزیہ نگار ، ماہرین زراعت ، اساتذہ  غرضیکہ تمام رائج الوقت علوم کے ماہرین  موجود ہیں جن کو کسی بھی زبان کے بلاگران کے مقابلہ میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔  نا مساعد سیاسی و معاشی حالات کے باوجود ان بلاگران نے خود کو منوایا ۔ کچھ دیگر بلاگر دوستوں کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ اردو بلاگران کو ایک پلیٹ فارم ملے اور ان کی کوئی رجسٹرڈ تنظیم ہو لیکن میری یہ خواہش وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑتی گئی ۔ اس کی بہت ساری وجوہات تھیں جن میں سے ایک وہ بھی تھی جس کا ذکر  میں نے اس تحریر کے ابتدائی پیرے میں کیا ہے ۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ اردو بلاگرز کو اپنی اس کمزوری پر دھیان دینا چاہئیے ۔ ان کو اعتراض کا جواب الزام کی بجائے دلیل سے دینے کی عادت اپنانا چاہئے ۔  محض تعلق داری یا دوستی کی وجہ سے اپنی انفرادی سوچ پر بند نہیں باندھنا چاہیے۔چبھتے سوالات ، تیکھے الزامات ، ٹیڑھے طرز ہائے کلام اور تشنہ طلب معاملات کو کمال مہربانی اور مثبت انداز کار میں نمٹانا چاہیے۔کیونکہ کامیاب اور نامور اہل  علم  و ادب کا یہی شیوہ رہا ہے ۔میں نے اپنی بہت ساری فیس بکی تحاریر میں اس طرف اشارہ کیا کہ ہمارا اردو بلاگر بلاغت تو رکھتا ہے لیکن بلوغت  (معاملہ فہمی) میں قدرے مار کھاتا ہے ۔   اور اسی کا نتیجہ ہے ذرا  سا اختلافی معاملہ بھی اردو بلاگرز کو ایک دوسرے سے الجھا کر رکھ دیتا ہے  ۔ 
اپریل کے ماہ میں کراچی میں اردو کانفرنس ہونے جا رہی ہے ۔ میری بڑی خواہش ہے کہ وہ کانفرنس ماضی کے برعکس کسی سیاسی مقاصد کے الزامات  یا  پھر مسلکی  تناظر کی بجائے خالص اردو کی خدمت اور ترویج کے مقاصد کے تحت منعقد ہو ۔ گو کہ میری کہی ایک بات پر کچھ دوستوں نے مجھے "متعصب" قرار دے ڈالا لیکن  مجھے یقین ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ان کا رد عمل غیر ضروری  اور شدید ہے ۔  اور سچی بات تو یہ ہے کہ وہ بات کہنے کے پیچھے بھی میرا ایک مقصد تھا کہ اپنے دوستوں  کو اس بات کا احساس دلاؤں کہ ہم بلاگران کے اندر جس چیز کی کمی کو میں محسوس کر رہا ہوں وہ کتنی شدت سے اپنے ہونے کا وجود یاد دلاتی ہے لیکن ہم اسے دور کر نے کی بجائے  سوال کرنے والے کو دلیل کی بجائے الزام سے نوازنے کا غیر ادبی رویہ رکھتے ہیں ۔
اردو بلاگنگ ، اب مائکرو بلاگنگ سے کافی متاثر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل مائکرو بلاگنگ کا ہے ۔ کانفرنس کے شرکاء میں کمپیوٹر کے تکنیکی امور کے ماہرین بھی شامل ہوں گے اور ان کا دھیان اس بات پر بھی ہو گا کہ تفصیلی بلاگنگ کے برعکس مائکرو بلاگنگ میں اردو کے لئے ابھی تک بہت کم سہولیات دستیاب ہیں ۔ بلاگ سپاٹ اور ورڈپریس گو کہ مائکرو بلاگنگ کے لئے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں لیکن آج کا مصروف دور اس بات کا متقاضی ہے کہ ایسے گیجٹس بنائے جائیں جن کی بدولت صارف اپنے براؤزر کی بار سے ہی مائکرو ونڈو کے ذریعے  اردو مائکرو بلاگنگ کی پیغام رسانی تک رسائی پا سکے ۔
_______________________مزید باتیں پھر کبھی  ۔


Wednesday, January 14, 2015

شاہ ، شیخ اور شہزادہ

3 comments
میرے موبائل کی گھنٹی بار بار بج رہی تھی اور مجھے کچھ کچھ اندازہ بھی تھا کہ اس وقت کون مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش میں ہے لیکن میں اپنا موبائل فون جیب سے نکال کر اپنے کان تک لانے سے قاصر تھا ۔ جب آپ بند دروازے کے پیچھے بٹھا دئیے گئے ہوں اور آپ کی شہہ رگ ایک تیز دھار آلے کی زد میں ہو اور تیز دھار آلہ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو کہ جس کی حرکات کی وجہ سے آپ کو "بندر کے ہاتھ میں استرا" والی مثال بار بار یاد آئے تو ایمان سے کہیے گا کہ کیا آپ اپنے جسم کو ادنی سی  جنبش دینے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں ؟ ۔ یہ شخص اپنا نام شہزادہ بتا رہا تھا لیکن کام اس کے راجوں بلکہ مہا راجوں والے دکھائی دیتے تھے جو خون ریزی کے رسیا ہوتے تھے ۔اس شخص کا ایک ہاتھ میری گردن پر تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ خطرناک آلہ تھا جو  میری شہہ رگ کو آن واحد میں کاٹ دینے کے لئے کافی تھا ۔ بار بار گھنٹی بجنے سے ایک گمان یہ بھی گزرا کہ شاید اس بند دروازے سے باہر حضرت عزرائیل علیہ السلام میری موت کا فرمان لے کر تشریف فرما ہیں اور فون کر کے مجھے ہلنے کی تحریک دے رہے ہیں تا کہ موت کا سبب اپنی تکمیل کو پہنچے ۔ نہ جانے اس کے جیسےاور کتنے خیالات ایک لمحے کے لئے ذہن میں آتے اور پھر ان کی جگہ نئے خیالات میرے دماغ پر قبضہ کرتے رہے ۔ تیز دھار آلے سے مسلح وہ شخص مسلسل مجھے اپنے حصار میں لئے ہوئے تھا اور اس نے اب تک اس آلے سے مجھے چند چھوٹے چھوٹے زخم لگا دئیے تھے جن سے خون بہہ رہا تھا ۔ 
بند دروازے کے باہر،  اٹک شہر میں ، سردیوں کی پہلی بارش ہو رہی تھی ۔ یہ سال 2015 عیسوی کے جنوری مہینے کا 13 واں روز تھا ۔ موسم خنک اور ہوا کافی زیادہ سرد تھی لیکن میں سردی سے زیادہ اس خوف کی وجہ سے ٹھنڈا ہوا جا رہا تھا جو اس تیز دھار آلے سے مسلح شخص کی وجہ سے مجھ پر طاری تھا ۔ جس جگہ مجھے بٹھایا گیا تھا اس کے بیرونی دروازے کا بالائی حصہ سرخ تھا اور اس پر میت کے چہرے جیسی پیلی مائل سفیدی سے لکھا ہوا تھا " لال گرم حمام" ۔ 
گو کہ میں نے اپنی اٹک آمد کی اطلاع جناب سید شاکر القادری صاحب کو دو روز قبل ہی کر دی تھی اور اس روز پشاور روڈ سے اٹک شہر کے داخلی راستے پر اپنے سفر کے آغاز پر ہی سید صاحب کے استفساری فون پر انہیں مطلع کر دیا تھا  کہ میں بس تھوڑی ہی دیر میں آپ کو اٹک شہر کے بس سٹینڈ پر دستیاب ہوں گا ۔ پشاور روڈ،  اٹک شہر سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور آج کے موٹری دور میں یہ فاصلہ 15 سے 20 منٹ میں طے ہو جاتا ہے ۔ سید صاحب نے وقت اور فاصلے کا درست اندازہ لگاتے ہوئے مجھے قریب آدھ گھنٹے بعد فون کیا لیکن میں جو "خوب سے خوب تر " نظر آنے کی کوشش میں اپنی گردن ایک استرے کے نیچے دے بیٹھا تھا اب سید صاحب کا فون سننے سے معذور تھا اور استرا بھی کسی عام   بندے کے نہیں بلکہ ایک ایسے  نائی کے ہاتھ میں تھا جو شاید اس سے قبل کسائی کے پیشے سے وابستہ رہا ہو گا اور انسداد بے رحمی حیوانات کے محکمے نے اسے اس کام کے کرنے سے بوجوہ روک دیا اور اب یہ حضرت اپنے فن کا مظاہرہ انسانی گردنوں پر دکھانے کے لئے اٹک شہر کے بس سٹینڈ پر لال گرم حمام کے نام سے زلف تراشی سے زیادہ چہرہ خراشی کے کام سے وابستہ ہو گئے تھے ۔
مزید 15 منٹ  تک یاس و امید کی کش مکش میں مبتلا رکھنے کے بعد ان حضرت کوبالآخر میری ڈھلتی جوانی پر ترس آ ہی گیا ۔ چہرے اور گردن پر ان کی کلا کاری سےبرآمد ہونے والا  وہ خون  جوقطروں کی صورت میں برس رہا تھا  شاید ان کے دل میں رحم پیدا کرنے کا سبب بن گیا تھا ۔انہوں نے استرے کو میری گردن سے پرے ہٹایا ۔ ایک فاتحانہ مسکراہٹ ، جو مجھے مکروہ دکھائی دے رہی تھی ، میرے چہرے پر ڈال کر اپنے مخصوص پوٹھوہاری لہجے میں گویا ہوئے " دانے بوؤں نکلے ہوئے نے چہرے تے " ۔ یہ فقرہ بول کر گویاان صاحب نے میرے چہرے پر لگائے جانے والے زخموں پر نمک چھڑک دیا اور اس پر مستزاد یہ کہ پھٹکڑی  کی مدد سے، ان زخموں  سے بہتے خون پر ،بندھ باندھنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے ۔ اب چونکہ تیز دھار آلہ مجھ پر سے ہٹا لیا گیا تھا اس لئے میں نے اپنا ہاتھ اپنی جیب کی طرف بڑھایا تا کہ شاکر القادری صاحب سے رابطہ کروں ۔ ہاتھ نے ابھی آدھا سفر ہی طے کیا تھا تو موصوف پھٹکڑی تھراپی کے دوران ہی بول پڑے "40 روپے"۔ میں نے ہاتھ کو وہیں سے واپس دوسری جیب کی طرف موڑا اور جھٹ سے 40 روپے نکال کر اس کے حوالہ کئے تا کہ وہ کسی طرح سے ان سے جان خلاصی کرواؤں۔ ایک لمحے کے لئے موصوف نے نوٹ پکڑ کر اپنے کیش باکس کی راہ لی تو میں نے بجلی کی سی تیزی سے دروازے کی طرف قدم بڑھا دئیے ۔ 
دروازے سے باہر نکل کر دیکھا تو رم جھم میں موسلادھاری کاٹ پیدا ہو چکی تھی ۔ سید صاحب کو فون کیا ، آپ بیتی کی تفصیل میں جائے بغیر ان سے درخواست کی کہ لاری اڈے کے داخلی دروازے کے کونے میں ہی لال گرم حمام کے سامنے تشریف لے آئیں ۔ شاہ صاحب ، اپنے بلیلے پر سوار ہو کر چند ہی منٹ میں نمودار ہوئے اور میں اپنے چہرے کو رومال سے صاف کرتا ہوا ان کے ساتھ  پچھلی سیٹ پر سوار ہو گیا ۔ لیکن میری حالت یہ تھی کہ بار بار منہ پر رومال رکھ رہا تھا اوریہ  منظر اگر شاہ صاحب دیکھ لیتے تو بالیقین میرے کریکٹر کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہو جاتے ۔ 
---------- 
سید شاکرالقادری صاحب سے ایک مفید ملاقات کا احوال اگلی قسط میں ان شاء اللہ ۔

Monday, August 11, 2014

احتیاط لازم ہے

6 comments
وہ بہت خوب صورت تھی ۔ اتنی خوب صورت کہ اس کی ہم عصر اس پر رشک کیا کرتیں ۔ اس کی اعضاء کا تناسب  اور جسم کے ابھار پوری تابانی کے ساتھ دیکھنے والوں کو یوں اپنی طرف متوجہ کر لیتے کہ نظر ہٹانا مشکل ہو جاتا ۔ حسن و خوبصورتی کی پوری قوس قزاح  کے انگ انگ سے  جھلکتی تھی۔ اس کی سبک خرامی کے کیا کہنے ۔ ایسی مستانی چال کی مالک تھی کہ دیکھنے والا اس پر عاشق ہو جائے ۔ اس کا شباب اسے زمین پر پاؤں نہ رکھنے دیتا یو ں لگتا کہ وہ ہواؤں میں اُڑتی چلی جا رہی ہے ۔ وہ گھر سے باہر نکلتی تو ہر کسی کی نظر کا نشانہ بنتی ۔ اس کا حسن و شباب اپنی جگہ پر لیکن ایک مرد کی غیرت کیسے گوارہ کر سکتی ہے کہ اس کی " ملکیت" کو کوئی دوسرا مرد میلی آنکھ سے دیکھے اسی لئے وہ جب بھی اس کے ساتھ گھر سے باہر نکلتا تو اس کے پردے کا خاص  خیال رکھتا ۔ تا کہ اس کے حسن کو کسی کی نظر نہ لگے ۔ وہ اسے زمانے کی نظروں اور حالات کی برائی سے ہر صورت بچا کر رکھا کرتا لیکن وہ اتنی لا پرواہ تھی کہ گھر سے نکلتے ہی اسے نہ اپنے پردے کا ہوش رہتا  نہ اپنی چال پر قابو۔ 
وہ اب کسی حد تک خود سر بھی ہو چکی تھی اور تو اور اب وہ سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگی اور کبھی کبھار کسی سیاسی میٹنگ یا جلسہ میں بھی شرکت کرتی ۔ وہ جہاں بھی جاتی وہیں لوگ اس کی تعریفیں کرتے ۔ جب وہ سیاست میں زیادہ ہی دخیل ہو گئی تو بہت سارے لوگوں کی نظروں میں رہنے لگی اور وہ لوگ اس کی دیگر مصروفیات پر بھی نظر رکھنے لگے ۔ اس کی چند مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے انتظامیہ نے پولیس کو بھی اس پر نظر رکھنے کے آرڈر دے دئے ۔

ایک دن  مرد اسکے ساتھ گھر سے نکلا  تو شاہراہ پر چلتے ہوئے پولیس نے ان دونوں کو روک لیا ۔ پولیس نے مرد سے ضروری دستاویزات طلب کیں لیکن وہ پیش نہ کر سکا ۔ چند منٹ کی بحث و تکرار کے بعد پولیس آفیسر نے فیصلہ سنا دیا کہ چونکہ یہ غیر قانونی سیاسی سرگیوں میں ملوث رہتی ہے اس لئے اسے گرفتار کر کے تھانے لے جانا پڑے گا ۔ مرد نے بہتیرا کہا کہ آپ اسے میرے بغیر تھانے کیسے لے جا سکتے ہیں لیکن پولیس کے پاس معقول عذر تھا کہ تم لوگ کسی بھی دستاویزات کے بغیر پھر رہے ہو اس لئے یہ تو تھانے جائے گی ۔ مرد سے کہہ دیا  گیا کہ تم ضروری دستاویزات لیکر تھانے پہنچو تا کہ اسے اور تمہیں صاحب کے سامنے پیش کیا جا سکے ۔
مرد کو دستاویزات نہیں مل رہی تھیں لیکن وہ ہر روز اس کو تھانے میں جا کر دیکھ آتا ۔ اسے یہ دیکھ کر قدرے اطمینان ہوتا کہ وہہاں وہ اکیلی نہیں ہے بلکہ اس کی دیگر سیاسی ساتھی بھی ہیں جن کو اسی الزام میں وہاں رکھا گیا تھا ۔ 
تین چار روز کی تلاش بسیار کے بعد دستاویزات مرد کو مل ہی گئیں ۔ اب اسے جلدی تھی کہ وہ اسے وقت ضائع کئے بغیر گھر واپس لے آئے نہ جانے وہاں اس کی غیر موجودگی میں اس کے ساتھ پولیس والے کیا سلوک کرتے ہوں گے ۔ کیونکہ تھانے میں چند روز گزارنے سے ہی اس کا حسن ماند پڑ گیا تھا ۔ جسم کی خوبصورتی و تابانی پہلے جیسی نہ رہی تھی ، رنگ روپ  بھی مرجھا گیا تھا اس لئے مرد کو یہ کھٹکا تھا کہ ضرور اس کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے ۔ 
مرد نے بڑے صاحب کے سامنے دستاویزات پیش کیں ۔ بڑا صاحب مرد کے ساتھ چل کر خود اس تک گیا ، اسے تیکھی نظروں سے سر سے پاؤں تک دیکھا اور بڑی ڈھٹائی سے اس کے جسم کو بہانے بہانے سے چھوا ۔ مرف یہ سب دیکھ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔ بالآخر دفتر میں واپس آ کر بڑے صاحب نے اسے منشی کے کمرے میں جانے کو کہا ۔ وہاں منشی نے اس سے اپنا خرچہ پانی لیا   اور بطور خاص یہ وعدہ لیا کہ وہ آج کے بعد سے کسی سیاسی جلسے میں شریک ہو گی نہ کسی سیاسی سرگرمی میں شرکت کرے گی ۔ مرد نے یہ سب کچھ تحریر کر کے دیا کہ وہ اب اسے  ہر قسم کی سیاست سے دور رکھے گا۔ یوں مردکو اسے اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت  مل گئی ۔
لیکن مرد کو جس بات کا ڈر تھا وہ ہو چکی تھی ۔ جب وہ اسے ساتھ لے جانے کے لئے اس کے پاس آیا تو وہ بالکل گم صم اور اداس کھڑی تھی ۔ گویا کہ اس کا سب کچھ لٹ چکا تھا ۔ اس کی رنگت و شوخی تو غائب تھی ہی اس کا جسم بھی خاصا منحنی و مضمحل تھا ۔ جب اسے ہلا جلا کر ہوش میں لایا گیا تو پتہ چلا کہ کہ اس کی آوازبھی بیٹھ چکی ہے ۔ اس کا نطام استخوان شدید متاثر ہو چکا تھا ۔ وہ بغیر سہارے کے کھڑی بھی نہیں ہو پا رہی تھی ۔ بار بار کھانستی اور پھر مردے کی طرح ساکت ہو جاتی ۔  اس کی روشن پیشانی پر ایک بڑا سا گڑھا پڑ چکا تھا ۔ اس کے جسم کے دیگر نطام بھی تباہ ہو چکے تھے کیونکہ اس کے اعضائے خفیفہ و اعضائے رئیسہ کے ساتھ بڑی بے دردی سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی ۔۔  کئی دنوں سے اسے بھوکی رکھا گیا تھا لہذا اس کی حرارت غریزی اب حرارت گریزی کی سطح پر پہنچ چکی تھی ۔ اس کی پشت پر تشدد کے اثرات نمایاں تھے۔ 

مرد بے چارہ مرتا کیا نہ کرتا ۔ اسے ایسی حالت میں وہاں بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔ اس لئے اپنی نئی نویلی ہنڈا 125 یورو 2014 کو اس بری حالت میں ہی گدھا ریڑھی پر لاد کر گھر کو چلتا بنا ۔

Tuesday, July 29, 2014

سراب کے اسیر

0 comments
میرے گھر کے ارد گرد کی گلیوں میں اتنی زیادہ مساجد ہیں کہ متصلہ چوک کو مساجد سکوائر کہا جا سکتا ہے ۔ ایک گلی میں تو چند قدم کے فاصلے سے دو مختلف مکاتب فکر کی مساجد ہیں اور ہر عیدالفطر پر ان کے درمیان عید کی نماز کے لئے بینر لگانے کا مقابلہ یوں ہوتا ہے کہ اس پر موبائل کمپنیوں جیسی کاروباری رقابت کا گماں گزرتا ہے جبکہ عید الاضحٰی پر اس کشاکش میں " جنگ چرم " کا گھمسان بھی پڑ جاتا ہے ۔ اگر کسی وقت ان مساجد کی مقابلہ بازی کی وجہ سے عقل کے ساتھ ساتھ کچھ بندے بھی اپنی جان سے گزر گئے تو کسی نہ کسی فرقے کے "شہداء" کی تعداد میں اضافہ یقینی ہے اور اگر "شہادت" کا ہما بیک وقت دونوں فرقوں کی منڈیر پر جا بیٹھا تو سمجھ لیجئے کہ پھر بلخ و بخارے کی تمیز ختم ہو جائے گی ۔
 اب ایسی شہادتوں کا خدشہ یوں بھی زیادہ رہتا ہے کہ ہر بندہ ہی اپنے فرقے کی خاطر " جہاد" کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے اور دوران وعظ منبر پر براجمان اپنے " شَیخ یا فاتح مخالفیت" کی طرف فرط عقیدت سے یوں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ جیسے کہہ رہا ہو " دل دیاہے جاں بھی دیں گے اے صنم تیرے لئے " ۔ خاکسار چونکہ اس قبیل کا "فعال" مسلمان نہیں ہے اس لئے مذکورہ دو مساجد کے علاوہ بھی کسی مسجد میں جانے سے ہرگز نہیں ہچکچاتا شاید یہی وجہ ہے کہ خاکسار کو کوئی بھی فرقہ " دلدار و وفادار" نہیں مانتا کیونکہ آج کل "وفاداری بشرط استواری" کا زمانہ ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب خلیل خاں بھی فاختہ اڑانے کی بجائے بندے" اڑانے" لگے ہیں ـــ وہ بھی ٹرپل ٹو سے ۔ سنا ہے کہ پہلے وقتوں میں مسلمانوں کے دشمن کسی "مشکوک" کا زیر جامہ اتار کر یہ دیکھا کرتے تھے کہ اگراس کی " مسلمانی" ہوئی ہے تو اسے پار کر دیا جائے لیکن اب چونکہ ہم سب نے پہلے ہی سے ایک دوسرے کی "اتار کر رکھ دی ہے" اس لئے یہ کشٹ اٹھانے کی حاجت نہیں ہے بس "گھوڑا" دباؤ اور بندہ پھڑکاؤ ۔ اگر پھڑکنے ولا مسلمان ہے تو کوئی بات نہیں کیونکہ داخلی سے لے کر بین الاقوامی سطح پر اس قتل کو قتل مانا ہی نہیں جاتا اور کچھ " بے ہدایت" تو اسے عین سعادت سمجھتے ہیں ـــ مرنے والے اور مارنے والے بھی ۔ اور اگر مارا جانے والا غیر مسلم ہے تو پھر ہم سو جوتے کے ساتھ سو پیاز بھی کھا لیں گے لیکن اپنا لہو گرمانے کے لئے دوسروں کا لہو بہانے سے نہیں رکیں گے تا وقتیکہ کسی دن خود بھی لہو لہو ہو کر کسی سڑک کنارے پڑے مل جائیں یا ہماری باقیات بجلی کے تاروں اور درختوں کی شاخوں پر جا اٹکیں ۔
 وقت کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسے بریکوں کے بغیر تخلیق کیا ہے اور یہ ہمارے لئے کبھی نہیں رُکتا اور نہ ہم اسے روک سکتے ہیں لہذا جب ہم اس کا ساتھ نہیں دیتے تو ہم سے بہت دور نکل چکا ہوتا ہے ۔ لیکن آنے والی نسلیں جو وقت کے ساتھ چل رہی ہوتی ہیں وہ جب ہمارے مساکن و مقاتل کے پاس سے گزرتی ہیں تو پھر تلوار کی بجائے قلم کے نوک سے ہمارے بو سیدہ جسموں کو کھرچتے ہوئے ان پر تحریر کرتی ہیں " یہ باقیات ہیں ان کی جو اپنےوقت کے مہذب ترین لوگ ہوا کرتے تھے لیکن جب انہوں ن ے تہذیب کی جگہ وحشت اپنا لی تو وقت کا ساتھ نہ دے سکے اور ایک دوسرے کو روندتے روندتے سب ختم ہو گئے " ۔